قومی اداروں کے خلاف مخصوص ایجنڈا رکھنے والے شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں پاک افغان سرحدی علاقے میں بمباری اور اس واقعے کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اداروں اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاہے، جبکہ سپیکر کی جانب سے پروڈکشن آڈر پراسمبلی اجلاس میں حاضر جنوبی وزیرستان کے ممبر قومی اسمبلی علی وزیرکا کہنا تھا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی۔ کاش کہ یہ دونوں ممبران قومی اسمبلی افواج پاکستان کے خلاف اپنی روایتی دشمنی اور ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی مذمت کرتے جنہوں نے ماہ رمضان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے آپریشن البدر شروع کیا ہے۔ کیا کبھی محسن داوڑ اور علی وزیر نے آواز بلند کی کہ کیوں افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال ہو رہی ہے؟ افغان سالمیت کا احترام اہم ہے لیکن افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مسلسل استعمال ہو رہی ہے۔رواں سال پہلے تین ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز کے افسران سمیت 97 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 128دہشت گرد ہلاک اور 256کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے نومنتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ کوئی کسی مغالطے میں نہ رہے، ہم ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے، جبکہ کالعدم تنظیم کے ترجمان نے ان 13 دنوں میں لگ بھگ ایک درجن سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
گذشتہ برس افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات چین کے ساتھ بہت قریب تر ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ 2022 جنوری سے پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017 کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ 2013 میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریبا چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020 میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے۔افغانستان سیامریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو امید تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ایسے میں افغانستان کی جیلوں میں قید تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کی رہائی کی خبریں اور مناظر سامنے آئے جن کے بعد گذشتہ سال ہی پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ 2021 میں پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 335 شہادتیں ہوئیں جبکہ 555 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 32 دہشت گرد مارے گئے۔ دہشتگرد حملوں میں 2020 کے مقابلے میں تقریباً 42 فیصد اضافہ ہوا۔ ان حملوں میں سے 128 کارروائیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، مقامی طالبان گروپس اور داعش ملوث تھے۔پاکستان حکومت نے گذشتہ برس کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور ہتھیار پھینکنے کی صورت میں ان کے بیشترشدت پسندوں کو قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں افغان طالبان نے ثالث کا کردار اداکرتے ہوئے فریقین میں جنگ بندی کا معاہدہ بھی طے کرایاتاہم دونوں جانب سے مذاکرات کا سلسلہ بغیر کسی نتیجے کے ٹوٹ چکا ہے جس کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ بھی ختم ہو گیا۔ افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے پر ملک بھر گہری تشویش ہے، پاکستان نے کئی بارافغانستان کی حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے اور پاکستان،ہمیشہ افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد افغان سرزمین کوپاکستان میں کارروائیوں کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ 14 اپریل کو افغانستان سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے سات جوانوں کو شہید کیا۔
پاکستان کا امن افغانستان سے جْڑا ہے، پاکستانی طالبان کی بیشتر قیادت اور رہنما افغانستان میں ہیں لہٰذا پاکستانی ادارے خفیہ حملوں میں تواْن کو نشانہ بنا سکتے ہیں،لیکن افغان طالبان کو ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کیا جا سکتا،اس لیے پاکستان کے پاس محدود آپشنز ہیں۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے مطابق افغانستان میں پاکستانی طالبان کے افراد کا شمار قریباً دس ہزار کے قریب ہے جو اْن کے سلیپرسیل اور حامیوں کے علاوہ ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 86 ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دیں، 18 ہزار دہشت گرد ہلاک کیے اور 449 ٹن دھماکا خیز مواد بر آمد کیا۔46 ہزار مربع کلو میٹر سے بارودی سرنگیں کلیئر کیں، القاعدہ کے 1100دہشت گرد ہلاک کیے، خفیہ اطلاعات پر مشتمل 2 لاکھ 45 ہزار 210 آپریشنز کیے اور 1,237 ملٹری آپریشنز کیے گئے۔ جبکہ گزشتہ چار برسوں میں آپریشن ردّالفساد کے تحت سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی،پولیس، ایف سی اور رینجرز نے بھرپور کردار ادا کیا۔ جبکہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ برس آپریشن دواتوئی کیا گیا، جس کے نتیجے میں 7 سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر ریاست کی رِٹ بحال کر دی گئی اور اب وہاں اقتصادی کام ہو رہا ہے۔اس دوران افواجِ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف 3لاکھ 75 ہزار سے زائد کارروائیاں، کیں جن میں 353 دہشت گرد جہنم واصل اورسیکڑوں گرفتار کیے گئے، جبکہ 1200 شدّت پسندہتھیار ڈال چْکے ہیں۔بہاول پور کور نے چولستان کے صحرائی علاقوں میں ضربِ حدید نامی تربیتی مشقوں کا انعقاد کیا،جن کا مقصد نئی جنگی حکمتِ عملی کے تحت صحرا کے مشکل ماحول میں جوانوں کو دفاعی اور جنگجوانہ صلاحیّتوں سے آراستہ کرنا تھا۔
پاک فوج ایک جانب دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہے، تو دوسری طرف محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے مخصوص بیانیہ و ایجنڈا کی فِفتھ جنریشن وار فیئر کابھی سامنا ہے، اور اس کے لیے قومی اسمبلی فورم کا استعمال قابل مذمت عمل ہے۔ قوم اورافواج نے پاکستان مخالف بیانیے کوشکست دی ہے، ٹیرراِزم سے ٹوراِزم تک کا سفر انتہائی کٹھن رہا،تین سالوں میں پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ قبائلی اضلاع میں 31 ملین روپے کی لاگت سے 831 منصوبوں کا بھی آغاز ہو چْکا ہے۔افغان سرحد پر 84فیصداورایران سرحد پر 43فی صد باڑ نصب کر لی گئی ہے، سدباب کیلئے پاکستان کوترجیح طور پر باڑ لگانے کا عمل مکمل کرنا چاہیے۔ پاکستان، دہشتگردی کیلئے افغان سر زمین استعمال ہونے کی شدید مذمت کرتا ہے، یہ دہشتگردی پاکستان افغان سرحد پر امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں کیلئے نقصان دہ ہے۔افغانستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریاور پاکستان افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے۔ پاکستان، افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے کیلئے افغانستان کی حکومت کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔ افواجِ پاکستان، دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے ہر طرح تیار ہیں، سکیورٹی ادارے جارحانہ انداز میں آپریشنز کر رہے ہیں اور ہمارے جوان دہشت گردوں کو ختم کیے بغیر دَم نہیں لیں گے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اور اس میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔سو، ہم اپنی قربانیوں کو کسی صْورت رائیگاں ہونیْ نہیں دیں گے۔ دہشت گردوں کے خلاف جرأت و شجاعت کا مظاہرہ کرنے والے قوم کے بیٹوں کو سلام ہے، جنہوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دے کر بتا دیا کہ دفاع ناقابل تسخیر ہے۔