21 اپریل کی نسبت مصورِ پاکستان علامہ اقبال سے ہے۔ آج کی دنیا میں دن منانے کی ریت نے اہم شخصیات کو سال کے ایک آدھ دن میں محدود کرکے رسماً یاد کرلینے کی طرح ڈال رکھی ہے۔ اتفاق ہے کہ قیامِ پاکستان کا مہینہ رمضان المبارک بھی آخری عشرے میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے کے مصداق یاد دہانی کی ہوک دل میں اٹھتی ہے۔ تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو کہنے کا جی چاہتا ہے۔ خصوصاً آج کا پاکستان جسے کچھ نے نیا پاکستان بنانے کی دعوے داری کرکے اس سے اس کی رہی سہی شناخت چھین لی۔ رمضان ماہِ قرآن ہے اور یہاں پورا ملک جابجا تحریکِ انصاف کے مخلوط موسیقی بھرے جلسوں میں گھرا ہوا ہے۔ عمران خان زخمی سانپ کی طرح پھنکارتے کرسی چھن جانے پر سبھی کچھ تہ وبالا کر دینے کے درپے ہیں۔ پوری قوم کو شہر شہر، رات 8 بجے خاندانوں سمیت جلسوں میں حاضر ہونے کے اعلان روزانہ جاری ہیں۔ یوں گویا عشاء اور تراویح کسی کے ذمے نہیں۔ صوبائی اسمبلی اور قبل ازیں قومی اسمبلی میں اقتدار ہاتھ سے جاتے دیکھ کر جو جمہوریت کے پرخچے اڑے (اسلام کا تو ذکر ہی کیا!) وہ المناک، شرمناک حد تک تہذیبی گراوٹ اور ہوسِ اقتدار کا غماز ہے۔ جب پوری سیاست ہی لوٹا گردی اور ہارس ٹریڈنگ سے عبارت ہے تو قوم کی شرمساری کا سامان کرنے کو اسمبلی میں پلاسٹک کے لوٹوں سے مسلح ہوکر حملہ آور ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تحریک انصاف کی بنیاد میں چنے گئے لوٹے اب بکھر کر کچھ یہاں گرے کچھ وہاں۔ ایسے میں مرثیہ خوانی، تبرا بازی اور سینہ کوبی کیسی؟
اس پورے منظر میں نہ نیا پاکستان نہ پرانا … حقیقی پاکستان کی کوئی شباہت، جھلک دکھائی نہیںد یتی۔ حکومت سازی کا مرحلہ خیر عافیت سے گزر جائے۔ اقبال، جناح کے خون پسینے، امیدوں آرزوؤں مرادوں امنگوں کا کیا تیاپانچہ ہو رہا ہے، اس سے فی الحقیقت کسی بڑے کو اس وقت غرض نہیں۔ بیس سال امریکا، مغرب کے مفادات کی جنگ میں ملک جھونک کر دو صوبے براہ راست متاثر کیے، خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ملک سیاسی گھڑمس میں الجھا پڑا ہے۔ ایسے میں افغانستان سے تعلقات کا بگاڑ امریکی سینے کی جلن دور کرنے کا سامان تو ہوسکتا ہے، مگر پاکستان کے لیے بدترین نتائج وعواقب کا سامان ہے خدانخواستہ۔ خدارا اپنی اصل کی طرف لوٹیے اسی میں ہماری بقا مضمر ہے۔ 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی رات 12 بجے جب پہلی مرتبہ یہ اعلان ہوا: ’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘ تو وہ 27 ویں شب تھی رمضان المبارک 1366ھ کی۔ نزولِ قرآن کی رات۔ پاکستان اور قرآن کا رشتہ انمٹ ہے۔ قرآن کے سائے میں وجود پانے والا ملک۔ اسی نسبت سے اپنے قومی وجود کے رہنماؤں میں سے اقبال کا تعلق بالقرآن دیکھیے۔ اس آئینے میں اپنی قومی، انفرادی، نسلِ نو کی صورت گری کی فکر کیجیے۔ کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ… کی شرمساری دور ہوسکے!
مسلمان اور قرآن کا باہم تعلق لازم وملزوم کا ہے۔ تاہم پاکستان اس تعلق میں انفرادیت کی ایک شان رکھتا ہے۔ تخلیق پاکستان کے لیے یہ رب تعالیٰ کی مشیت تھی کہ اس نے ہمیں نہ صرف نزولِ قرآن کے مبارک مہینے سے نوازا، بلکہ خاص عشرۂ لیلۃ القدر کی چنیدہ 27 ویں شب پاکستان بنا۔ مسلمانِ برصغیر نے ولولے سے بھر کر گلی کوچوں میں نعرہ لگا دیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ! رحمتِ حق (بہانہ می جوید، کے مصداق) عطا پر تلی بیٹھی تھی ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہماری جھولی میں تقدیر کی رات نے ایک سرسبز وشاداب خطۂ زمین، بانیانِ پاکستان کے سچے خوابوں اور عوام الناس کی چاہتوں کا ثمر ڈال دیا۔ نزولِ قرآن کی رات ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جس کے لیے دوٹوک الفاظ میں قائداعظم نے فرمایا تھا: ’میں مسلمانوں کے لیے کلمہ طیبہ پر مبنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔‘ مصورِ پاکستان، مبشر پاکستان علامہ اقبالؒ کا یہ خواب قرآن سے ان کی بے پناہ شیفتگی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت کے شجر طیبہ کا ثمر تھا۔ انہوںنے خونِ جگر دے کر اسے پالا، اشعار میں پروکر مسلمانوں کی فکر ونظر میں سمویا۔ نگاہ محمد علی جناح پر جا ٹھہری۔ اس کھرے شخص نے اقبال کی نگاہ سے منزل کو دیکھا، سمجھا اور ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ اقبال کا یہ فرمان مسلم تشخص کے اعتبار سے حرفِ آخر ہے۔
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
اگر تو مسلمان بن کر جینا چاہتا ہے تو یہ جبھی ممکن ہے کہ تو قرآن کے مطابق ڈھل کر زندگی بسر کر۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میںہے قرآن۔ نیز فرماتے ہیں کہ: آں کتابِ زندہ قرآن حکیم، حکمت او لایزال است وقدیم۔ یعنی وہ زندہ کتاب قرآن پاک ہے جس کی حکمت نہ ختم ہونے والی ازلی ابدی ہے! حکمت وودانائی کا سرچشمہ! (رموزِ بے خودی) جہاں قرآن ایک فرد سے متقاضی ہے کہ اس کی پوری زندگی قرآن وسنت کے تابع ہو، وہاں قومی زندگی بھی ہر شعبۂ حیات میں اتباعِ قرآن کے مطابق ہونا لازم ہے۔ بانیان کے ہاں تحریک پاکستان کی روح کے رگ وپے میں قرآن اترا ہوا تھا۔ علامہ اقبال کا کلام فی نفسہٖ قرآنی فکر سے مستنیر ہے۔ سچائی اور اخلاص کایہ علم ہے کہ رموزِبے خودی میں اس حوالے سے کہتے ہیں: ’ اگر میرے دل کا آئینہ جواہر سے خالی ہے۔ اگر میری شاعری میں قرآن مجید کے سوا بھی کچھ ہے تو حضورِ والاؐ! آپ کی روشنی تمام زمانوں کے لیے صبح کا سر وسامان ہے… آپ میری فکر کی عزت وحرمت کا پردہ چاک کر دیجیے… قوم کو میرے شر سے محفوظ کر دیجیے… قیامت کے دن مجھے ذلیل ورسوا ہونے دیجیے اور اپنی پابوسی (مبارک پاؤں کے بو سے)سے بے نصیب ومحروم رکھیے۔ اور اگر میں نے صرف قرآنی اسرار کے موتی پروئے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے سچی باتیں کہی ہیںتو اس کے بدلے میں صرف آپؐ کی دعا کافی ہے۔ اللہ عز وجل کی بارگاہ میں عرض کیجیے کہ میرا عشق، عمل سے ہمکنار ہو۔ مجھے غمگین جان کی دولت عطا ہوئی ہے، علم دین سے بھی حصہ ملا ہے۔ اللہ سے عرض کیجیے کہ مجھے عمل میں زیادہ استواری نصیب ہو۔ میں ابرِ بہار کے پانی کا قطرہ ہوں۔ مجھے گوہر بنا دیجیے۔‘
پاکستان کی قدر قیمت (الجھی سیاست اور پی ایس ایل کے مسلسل ہنگاموں میں) کھو دینے والے آج کے پاکستانی کے لیے یہ یاد دہانی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ: وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ! نگاہ اٹھاکر بانیانِ پاکستان کی امنگیں، آرزوئیں، امیدیں، خواب، عزم وہمت دیکھیے۔ ان خوابوں کو اپنی نسل کی تربیت میں سمو دیجیے۔ شاید کہ ہمارا کل آج سے بہتر ہو۔ اقبال کی اپنی اٹھان اور تربیت ان کے مکرم باپ اور ان کے استاد نے قرآن پر کی تھی۔ اسی کا اثر اقبال سے قائداعظم کو بھی منتقل ہوا۔ اقبال کا کلام اور جناح کی تقاریر، پاکستان کے مستقبل کو جس تواتر سے قرآن اور اسلام سے منسلک کرتی ہیں، اس کی یاد دہانی ضروری محسوس ہوتی ہے۔ نوجوان نسل کی سیرت وکردار میں ان بنیادی عوامل کی شدید کمی ہر سطح پر ہے۔ عصری تعلیم، اساتذہ (الاماشاء اللہ) ادارے اور نصاب تہی دامن ہیں۔ رہنمائی کے منصب پر سیاست دان فائز ہیں جن کا علمی پایہ ناقص ترین ہے۔ کتاب سے سبھی کا ناتہ ٹوٹ چکا ہے۔ مبلغ علم سوشل میڈیا کا رطب ویابس ہے۔ (نوجوان ایک پروگرام میں فخریہ کہہ رہے تھے کہ ہماری تعلیم وتربیت سوشل میڈیا نے کی ہے! ساتھ ہی مولوی اور شرعی حلیے (شلوار قمیض ٹوپی) کے پرخچے اڑا رہے تھے!) شعر وشاعری ٹرکوں کے پیچھے لکھے شعر یا سوشل میڈیا پر اسی معیار کے اشعار کا ملغوبہ ہے۔ کسر رنگ برنگے موٹیویشنل سپیکرز پوری کردیتے ہیں۔ کل تک عامر لیاقت عالم آن لائن! آج ماڈلوں سے شادیوں کا چیمپئن ہے۔ قرآن کا علم واجبی ہے تاریخ سے مس نہیں رکھتے۔ زبان پر عبور؟ بے زبانی کا عجب عالم ہے نہ اردو نہ انگریزی نہ عربی۔ فارسی کا تو ذکر ہی کیا، جس زبان میں اقبال اپنے جواہر پارے چھوڑ گئے ہیں۔ علم وتعلم بالعموم ذریعۂ معاش ہے بذریعہ یوٹیوب۔ ایسے میں اقبال اور قائداعظم کے تعلق بالقرآن پر بات شاید کچھ آئینہ دکھا دے اور اسے پانے کی تڑپ والدین اور نوجوانوں کو راہ بھی دکھا دے۔ ہمارا مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ اقبال نے کہا: ’اے بصیرت رکھنے والے شخص، نقدی، لباس، چاندی اور سونا قوم کا سرمایہ نہیں ہیں۔ قوم کی دولت تندرست بیٹے ہیں جو روشن دماغ، محنتی اور چاق وچوبند ہوں۔ (عورت کے حوالے سے کہتے ہیں) مائیں اخوت کے راز کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ وہی قرآن اور ملت کی طاقت ہیں۔ سیدہ فاطمہ الزہرہؓ تسلیم (فرمانبرداریٔ رب تعالیٰ) کی کھیتی کی تیار شدہ فضل ہیں۔ ماؤں کے لیے سیرت وکردار کا کامل نمونہ ہیں۔… اے پردہ نشین خاتون تو زمانے کی لوٹ مار سے ہوشیار رہ۔ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لے دوسروں کے سپرد نہ کر۔‘ (رموزِ بے خودی) اولادوں کو اسلامی کلبوں، اکیڈیمیوں کے حوالے کرکے فارغ نہ ہو بیٹھیے جہاں انتشارِ فکر، بے جہت ہونے کے امراض چھوت کی طرح پھیلتے ہیں ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں