نئی دہلی : بھارت میں کورونا کی نئی لہر نے نظام زندگی مفلوج کردیا۔ یومیہ نئے کیسز اور ہلاکتیں ریکارڈ بنا رہی ہیں، آج 3 لاکھ 46 ہزار سے زائد نئے کیسز اور2600 ہلاکتیں سامنے آئی ہیں جو کہ یومیہ کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آنے کا ریکارڈ ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کم رپورٹنگ سے یہ خدشات بھی سامنے آرہے ہیں کہ ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بھارت میں اب تک کورونا سے کل ایک لاکھ نوے ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
دو ماہ قبل وزیر اعظم مودی اور اس کے وزراءعوام کو کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کی نویدیں سنا رہے تھے،دنیا کو اپنی مثال پیش کررہے تھے دنیا بھر کو،ویکسین کی فروخت کے ریکارڈ سودے کیے جار ہے تھے،آخر کیا ہواکہ آنا فاناً ہندوستان کورونا وبا کا گڑھ بن گیا۔
دنیا بھر کے موقر جرائد اور اخبارات بھارت میںکورونا کی صورت حال پر تجزیے کررہے ہیں، ان کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس ڈراؤنا خواب بن گیا ہے، ایک ارب سے زائد آبادی کے ملک میں صرف ایک عشاریہ32فیصد نے مکمل ویکسی نیشن کرائی یعنی 17972744افراد نے ویکسین کی پوری خوراکیں لیں جب کہ8عشاریہ17فی صد یعنی111673361افراد نے کم از کم ایک خوراک لی۔
مارچ میں حکومت نے نئے وائرس کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کی گھمبیر صورت حال سے خبر دار کردیا تھا کیونکہ کورونا کا نیا وائرس بھارت میں اکتوبر کے اوائل سے ہی گردش میں تھا،جسے کورونا وائرس کی قسم بی 1617کا نام دیا جاتا ہے یہ وائرس دو شکلوں ایک E484Q اور دوسری L452R میں ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان تحقیق کررہے ہیں لیکن ابھی کچھ واضح نہیں کہ کتنا پھیل چکا ہے تاہم دنیا کے 21ممالک میں اس وائرس کی نشان دہی ہوچکی ہے، جب کہ برطانیہ میں کورونا کا نیا وائرس 50ممالک میں پھیل چکا ہے،بھارتی قسم برطانوی کورونا وائرس کی قسم سے زیادہ وبائی ہے۔
یہ وائرس مدافعتی نظام میں انٹی باڈیز سے بچنے میں مدد دیتا ہے لہٰذا ایک یا دو ویکسین کے خلاف مزاحمت کرتا ہےجس سے ویکسین اس وائرس پر غیر موثر ہے، فروری میں ایسا لگا کہ بھارت وائرس کو شکست دینے کے قریب ہےکیونکہ یومیہ 11ہزار کیسز سامنے آرہے تھے۔
گزشتہ ماہ وزیر صحت نے اعلان کیا کہ یہ وبا خاتمے کے قریب ہے،15 اپریل کے بعد دو لاکھ سے زیادہ کیسز یومیہ سامنے آنے لگے تو پھر غلطی کہا ں ہوئی، ماہرین برطانیہ میں کورونا کی نئی قسم کے پھیلنے کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں بغیر ماسک کے بڑے بڑے ہجوم دیکھنے کو آئے،ریاستی انتخابات کی ریلیاں اور اجلاس منعقد کیے جارہے تھے، رواں ماہ مذہبی تہوار کمبھ میلے کے سلسلے میں لاکھوں افراد نے دریائے گنگا کا رخ کیا جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ نئے واقعات ہوئے۔
وسط فروری میں مودی نے بیان دیا کہ کووڈ کے خلاف کامیاب جدوجہد پوری دنیا کیلئے مثالی ہے،اس کے بعد حکام نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کردیں،شہریوں نے سماجی فاصلے کے پروٹوکول کو نظر انداز کردیا،ماسک پہننا چھوڑ دیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ اضافے کی وجہ نیا وائرس اور لوگوں کی بڑی تعداد کا گھروں سے باہر نکلنا ہے۔
بڑھتی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی ہے کہ موجودہ لہر میں زیادہ سے زیادہ نوجوان کیوں متاثر ہورہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں کو کام اور تفریح کے لئے بے ہنگم طرح سے باہر آئے، وباءکے دوران بوڑھے لوگوں کے گھروں سے نکلنے کی شرح کم رہی ، حالیہ اضافے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ حکومت ردعمل غیر موثر تھا۔
وائرس کی رفتار،وسعت نے دوسری لہر کو انتہائی وحشی بنادیا ہے، بھارت میں نئے کیسز کی شرح میں سست روی کا کوئی اشارہ نہیں، سائنس دانوں کو خدشہ ہے مغربی بنگال میں وائرس کی نئی قسم اس سے بھی خطرناک ہوسکتی ہے،امریکی جریدے فوربز نے لکھا کہ بھارت کی اس تباہ کن صورت حال پر دنیا کا ردعمل خاموش ہے،بھارت کے ساتھ سفری پابندیاں عائد کردی گئی ہیں،تشویش کا اظہار تو کیا جارہا ہے لیکن مغربی رہنماؤں نے اس سے نمنٹے کا بھارت کو کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں دیا۔
امریکا بھارت پر ویکسین کی تیاری کیلئے خام مال سے پابندی ہٹا سکتا تھا لیکن نہیں اٹھائی،امریکا نے آسٹرا زینیکا کی ساڑھے تین کروڑ خوراکیں صرف ذخیرہ کر رکھی ہیں جسے وہ کبھی بھی استعمال نہیں کرے گا۔بلوم برگ لکھتاہے کہ زیادہ تر اموات جو دیہی علاقوں میں ہورہی ہیں وہ رجسٹرڈ ہی نہیں۔
مجموعی ہلاکتوں میں سے 20سے 30فی صد کو طبی سرٹیفکیٹ دیا جا رہا ہے،اس کی وجہ ناقص ٹیسٹنگ اور صحت کا نظام ہے جس نے بھارت میں ابتر صورت حال بنا دی ہے،دہلی میں ملٹری اسپتالوں سمیت کسی بھی اسپتال میں مریضوں کے لئے جگہ نہیں، کووڈ کا شکارایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو دہلی کے کیس فوجی اسپتال میں جگہ نہ ملنے پر چندی گڑھ لے جایا رہا تھا کہ راستے میں دم توڑ گیا،آکسیجن کی کمی اورعدم دستیابی سے مزید حالات خراب ہورہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہےکہ کورونا سے دنیا بھر میں ہلاکتیں ہو رہی ہیںکیونکہ انہیں ویکسین نہیں لگائی جارہی،ان کے ٹیسٹ نہیں کیے جارہے اور ان کا مناسب علاج نہیں کیا جارہا۔بھارت میں صورت حال انتہائی تشویش خیز ہے یہ تباہ کن یاد دہانی ہے کہ وائرس کیاکرسکتا ہے۔ طبی جریدے ”دی لینسیٹ“کے مطالعے میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر بھارت میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو جون تک یومیہ33 سو ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
موجودہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لئے ناقدین ایک حد تک نئی دہلی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں،حکومت نے اقدامات میں سستی دکھائی، حالانکہ ان کے علم میں تھا کہ گزشتہ برس کے آخر سے کورونا کی نئی اور مہلک دوسری لہر ممکن ہے۔
واضح کہا بھی گیا کہ بھارت صحت عامہ کی کسی ہنگامی صورتحال کی طرف گامزن ہے۔صحت عامہ کی صورتحال پہلے ہی سنگین ہے اب وہ بیماری اور موت کے بوجھ تلے درہم برہم ہورہا ہے۔
ہسپتالوں میں خطرناک طور پر آکسیجن کم ہے، اور مریض بستر بانٹ رہے ہیں۔ گجرات میں، وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست میں شمشان گھاٹوں کی بھٹیاں زیادہ استعمال سے پگھل رہی ہیں۔ اگرچہ بھارت نے جنوری میں بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن مہم چلائی تھی لیکن اب اسے بڑی قلت کا سامنا ہے، کیونکہ اس نے اس سال کے اوائل میں لاکھوں ویکسین بیرون ملک برآمد کی تھیں۔
گزشتہ سال جب وبا پہلی بار بھارت میں پھیلی تو نئی دہلی نے تیزی سے کام کیا اور ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، اور اس کی ابتدائی لہر نسبتاً معمولی تھی۔ ستمبر میں اس کی ابتدائی عروج کے دوران، یومیہ کیسز ایک لاکھ سے تجاوز نہیں کرتے تھے یعنی زیادہ سے زیادہ 93ہزار کیسز یومیہ سامنے آئے لیکن اب روزانہ تین لاکھ سے زائد کیس آرہے ہیں۔