لاہور :قومی ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور میں بھارتی کاغذ پر پاکستانی ٹیم سے مضبوط تھی تاہم بھارتی کھلاڑی ٹیم سے زیادہ اپنے ذاتی ریکارڈز کے لیے رنز اسکور کرتے تھے۔
قومی ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کے یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انضمام الحق نے اپنے دور میں پاکستان اور بھارتی ٹیم کے درمیان بنیادی فرق پر تفصیلی گفتگو کی۔
قومی ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کے حوالے سے سوال پر قومی ٹیم کے سابق کپتان نے جواب دیا کہ اگر ہر سیریز کے بعد کھلاڑی کو یہ محسوس ہو گا کہ اگر وہ کامیاب ہو گا تو اسے ٹیم میں رکھا جائے گا اور ناکامی پر ٹیم سے نکال دیا جائے گا تو وہ کھلاڑی کبھی بھی اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکے گا۔
انہوں نے کہاکہ جب ہم بھارت سے کھیلتے تھے تو کاغذ پر ان کی ٹیم ہم سے کہیں مضبوط تھی لیکن ہمارے کھلاڑی اگر 30-40 رنز بھی اسکور کرتے تھے تو وہ ٹیم کے لیے کھیلتے تھے البتہ بھارتی کھلاڑی اگر سنچری بھی اسکور کرتے تھے تو بھی وہ اپنی ذات اور ریکارڈ کے لیے ہی کھیلتے تھے اور یہی دونوں ٹیموں میں اہم فرق تھا۔
انضمام نے کہا کہ اب ہمارے کھلاڑیوں کو ٹیم میں اپنی جگہ گنوانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے، وہ سمجھتے ہیں ان کے پاس اپنے فن کے جوہر دکھانے کے لیے ایک یا دو اننگز ہیں لہٰذا وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ٹیم کو ان سے کس قسم کی کارکردگی درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے کپتان اور کوچ کا ایک پیج پر ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ کھلاڑیوں کو مکمل تحفظ کا احساس فراہم کر سکیں جس کی بدولت وہ ٹیم کی ضروریات کے مطابق کارکردگی دکھا سکیں۔1992 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح گر اننگز کھیل کر راتوں رات سپر اسٹار بننے والے انضمام نے کہا کہ اس وقت کے کپتان عمران خان کھلاڑی کی فارم نہ ہونے کے باوجود اس کو بھرپور سپورٹ کرتے تھے اور اسی وجہ سے تمام کھلاڑی ان کا بطور لیڈر بہت احترام کرتے تھے۔انہوںنے کہاکہ عمران بھائی تکنیکی کپتان نہیں تھے لیکن وہ کھلاڑی سے بہترین کارکردگی لینے کا فن جانتے تھے، وہ نوجوان کھلاڑیوں کو بہت سپورٹ اور ان پر یقین کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ عظیم کپتان بنے۔
پاکستان کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ میں 20ہزار سے زائد رنز بنانے والے انضمام نے کہا کہ اگر کوئی کھلاڑی ایک سیریز میں ناکام ہو جاتا تو عمران خان اسے ٹیم سے ڈراپ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ کھلاڑی کو مکمل مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ٹیم میں سب ان کی بہت عزت کرتے تھے۔انہوں نے کھلاڑی کو مکمل سپورٹ کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کھلاڑی محسوس کرے گا کہ ٹیم میں اس کی جگہ خطرے میں ہے تو وہ ٹیم کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات کے لیے کھیلنا شروع کردے گا۔