میں ڈیفنس فیز ون ، ایچ بلاک کمرشل ایریا میں نادرا کے ایگزیکٹو سنٹر گیا، بہت رش تھا، شناختی کارڈ میں تبدیلی کے نام پر ٹوکن لیا اور سامنے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے کلین شیو افسر ٹائپ موٹے سے بندے کے پاس پہنچ گیا۔ اس سے کہا کہ یہ میرا شناختی کارڈ ہے اور میں ا س پر اپنی جنس مرد سے عورت کروانا چاہتا ہوں۔ اس لئے سر سے پیر تک مجھے دیکھا اور کہا، یہ نہیں ہوسکتا، کوئی ریزن دو۔ میں نے اپنے فون سے فوری طور پر جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا ایک بڑے اخبار میں شائع کالم دکھایا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ نادرا نے اب تک کوئی تیس ہزار کے لگ بھگ افراد کی جنس محض ان کی درخواست پر تبدیل کر دی ہے۔ میں نے کہا کہ بائیو میٹرک کر کے میری تصدیق کرو کہ یہ میں ہی ہوں اور شناختی کارڈ پر میری جنس عورت کر دو، اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں کوئی پاگل ہوتا ہوں اور بولا، جنس تبدیل کرانے کا بہت لمبا پراسیجر ہے ، ہاں، اگر پہلی مرتبہ شناختی کارڈ بن رہا ہو تو مرد یا عورت جو مرضی لکھوا لو۔ مجھے لگا کہ یہ افسر مجھ سے بھی زیادہ کم علم ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس پر برتھ سرٹیفکیٹ المعروف جمن پرچی کی شرط نہیں لگے گی کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے، جواب ملا کہ بالکل لگے گی اور آپ کے کوائف آپ کے ڈاکومنٹس کے مطابق ہی ہوں گے۔ اس نے میرے بحث کرنے پر کہا کہ ہم جنس تبدیل کرنے کی درخواست لے لیں گے اگر آپ ثابت کریں کہ ہم نے غلط جنس لکھ دی ہے یا آپ ثابت کریں کہ آپ کی جنس تبدیل ہوگئی ہے۔
میرے بہت سارے صحافی دوست اس پر ویلاگ کر رہے ہیں کہ نادرا جنس تبدیل کر رہا ہے،میں نے جناب فرید احمد پرا چہ کو چیلنج دیا کہ میرے ساتھ چلیں اور میری جنس تبدیل کروا دیں مگر انہوں نے میرا چیلنج قبو ل نہیں کیا اور کہا کہ یہ جو تیس ہزار کے لگ بھگ جنس تبدیل ہوئی ہے یہ کہیں تو ہوئی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جن کی جنس کا اندراج غلط ہوا اور وہ بھی ہوں گے جن کی جنس واقعی تبدیل ہو گئی، اب یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ کسی کے جسم میں ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے جنسی تبدیلی ہو گئی ہو اور ہمارے پاس پر کوئی قانون ہی موجود نہ ہو اور وہ دیواروں سے ٹکریں مارتا پھرے۔ فرید احمد پراچہ صاحب نے کہا کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈرز الگ الگ ہیں۔ خواجہ سرا وہ ہیں جو پیدائشی طور پر ایسے میل اور فی میل دونوں خصوصیات کے ساتھ ہوں مگر ٹرانس جینڈرز وہ ہیں جن کی وہ نہ رہی ہو جو پیدائش کے وقت ظاہر کی گئی ہو لہذا ان کے مطابق اس قانون کا عنوان ٹرانس جینڈرز کے رائٹس نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے ایک ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ خواجہ سرا کے لئے انٹر سیکس کا انگریزی متبادل لفظ موجود ہے۔ فرید احمد پراچہ صاحب ، بے گھر فاونڈیشن کی سربراہ عاشی بٹ سے مکالمہ کر رہے تھے اور کاغذات میں جنس تبدیل کروانے کے لئے میڈیکل ٹیسٹ کی شرط پر زور دے رہے تھے تو عاشی بٹ نے چھکا مار دیا، کہا، اگر خواجہ سرا ہونے کے لئے میڈیکل ٹیسٹ ضروری ہے یا تو پھر ہر مرد کو بھی شناختی کارڈ میں خود کو مرد لکھوانے کے لئے میڈیکل ٹیسٹ کروانا چاہیے کہ وہ نامرد تو نہیں۔
ہماری دینی جماعتوں کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ عورتیں ، عورتوں سے شادی کے لئے اور مرد ، مردوں سے شادی کے لئے جنس تبدیل کروا رہے ہیں اور یہ معاملہ ہم جنس پرستی ہے۔ اگر یہ معاملہ واقعی ہم جنس پرستی کا ہے تو پھر مجھے اپنی دینی جماعتوں سے کہنا ہے کہ پھر وہ اس کی مکمل روک تھام کے لئے مولوی عبدالعزیزجیسی چیزوں کو بھی اس بل میں شامل کریں اور ہاسٹلوں میں اس کی برائی کے پھیلا وکوبھی۔ میرے اس تھوڑے کہے کو ہی زیادہ جانیں اور میرے اصل اعتراض کو سمجھیں کہ ہم نے اللہ کی اس مخلوق کو پہلے ہی اچھوت بنا کے رکھا ہو ا ہے۔ خدا خدا کر کے ان کے لئے کوئی قانون بنا ہے تو اسے متنازعہ نہ بنائیں بلکہ کوشش کریں کہ اس بل میں ان کی تعلیم، صحت ، رہائش اور روزگار جیسی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ان کی توہین کے خلاف جو قانون سازی کی گئی ہے اس پر عمل ہو۔ میں جماعت اسلامی کے دوستوں سے بصد احترام کہتا ہوں کہ وہ پہلے ہی سیاسی میدان سے آؤٹ ہیں، اس مظلوم مجبورمقہور اور محروم طبقے کی بددعائیں نہ لیں کہ کہیں وہ منصورے سے بھی آؤٹ نہ ہوجائیں۔ ان کے لئے کچھ اچھا سو چیں، کریں۔
میں نے اس پورے معاملے کو دیکھا اور سمجھا ہے۔ یہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے، مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو ، ناحق خون پروانے کا ہو گا۔ دینی جماعتیں بہت دور کی باتیں سوچ رہی ہیں۔ کیا وہ مجھے ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں کسی ایک بھی شخص نے جنس تبدیل کروا کے اپنی ہی جنس کے بندے سے شادی کر لی ہو۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں یہ ناممکن ہے اور دوسری بات یہ ہے جس نے ہم جنس پرستی جیسا گناہ کرنا ہی ہے تو وہ اس کے لئے کسی مذہب اور قانون کو کب اہمیت دیتا ہے۔ کیا ہمارے مدارس اور ہاسٹلز کی جو کہانیاں ہیں وہ اس قانون کی وجہ سے ہیں۔عاشی بٹ نے پروگرام میں فرید پراچہ صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے اور کہا کہ ہم پہلے ہی بہت دکھی اور ستائے ہوئے ہیں۔ کیا اس وقت جتنے جنسی جرائم ہو رہے ہیں وہ ہم کر رہے ہیں، کیا ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد جرائم میں خود مکمل عورتیں اور مرد ملوث نہیں۔ ان کے لئے جو قانون سازی ہوئی ہے اس پر عمل ہونے دیں، اس کو متنازعہ نہ بنائیں۔ مجھے علم ہے کہ وہ بہت سارے لوگ جن کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا کان کتا لے گیا ہے، وہ کان ٹٹولے بغیر کتے کو گالیاں دیتے ہوئے دوڑ لگا دیتے ہیں وہ یہی سمجھیں گے کہ اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرست آپس میں شادیاں کر رہے ہیں۔ وہ نادرا کے قریبی دفتر میں جا کے تصدیق نہیں کریں گے۔ وہ اپنی سماجی اور معاشرتی روایات نہیں دیکھیں گے کہ اگر ہم میں تحقیق کا مادہ ہوتا، ہم تھڑ دلے نہ ہوتے تو عمران خان صاحب کی تقریروں کے پیچھے لگ کے ایک نیا پاکستان بنانے کیسے نکل پڑتے۔
میں مانتا ہوں کہ سازشیں بھی ہوتی ہیں، این جی اوز بھی متحرک ہیں، مغرب بھی اپنا ایجنڈا لاگو کرنا چاہتا ہے مگر میں یہ بھی مانتا ہوں کہ زیادہ تر سازشی تھیوریاں صرف اور صرف توجہ لینے کے لئے ہوتی ہیں۔ جماعت اسلامی کو توجہ مل گئی ہے، اسے یہ کامیابی مبارک ہو مگر کس قیمت پر، خواجہ سراوں کے لئے آ نے والے واحد قانون کو متنازع بنا کے، یہ قیمت میرے خیال میں اللہ کے نزدیک بھی بہت بڑی ہے۔