عالمی سطح کے معروف ماہر معیشت اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے خالق ڈاکٹر محبوب الحق کی تھیوری کو ترقی پذیر ممالک نے اپنے ہاں رائج کرتے ہوئے افرادی قوت پر سرمایہ کاری کی اور معاشی ترقی کی منازل طے کی ہیں، آج وہ بڑے قد کے ساتھ دنیا کی معاشی دوڑ میں شامل ہیں، ان میں سنگا پور، تائیوان، ویت نام کے علاوہ اس خط میں بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں، جس ریاست سے اس شخصیت کا تعلق تھا ،اس کے روح رواں آج بھی کشکول تھامے نگرنگر گھوم رہے ہیں۔حالانکہ یہ ریاست دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے مالا مال ہے۔
روایت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں موصوف جس کے وزیر خزانہ تھے،انھوں نے بجٹ تقریرکے موقع پر کہا کہ آئندہ پچاس ہزار سے زائد کا لین دین بذریعہ چیک ہوگا،جس سے اندازہ ہو کہ کوئی فرد یا کمپنی کتنا لین دین کرتی ہے اور یہ ڈیٹا افشا کر دے گا کہ کمپنی یا فرد کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے،بقول ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم کے آمدن نہ بڑھنے کی وجہ ٹیکس کی چوری ہے ،ان کا کہنا تھاکہ سماج کی ایلیٹ کلاس اپنے حصہ کا ٹیکس ادا نہیں کرتی اور لاکھوں پاکستانی اپنا لین دین نقد کرتے ہیں،جب دستاویزی معیشت فروغ پائے گی تو ٹیکس چوری بھی رک جائے گی ،مگر انکی یہ کاوش خواہش ہی رہی، اس فیصلہ کے خلاف حسب روایت تاجروں نے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ملک بھر میں معاشی سرگرمیاں سست پڑگئیں ، عذر یہ پیش کیا گیا کہ چھوٹے تاجر، دکان دار چیک قبول نہیں کریں گے کیونکہ کلیرنس میں وقت کا زیاں ہو گا، ایکسپورٹ کے آرڈر منجمد ہو جائیں گے، تاجروں کے بھر پور احتجاج کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بذریعہ چیک لین دین کے فیصلہ کو اگلے بجٹ تک موخر کر دیا، اس کے بعد ایک اور فوجی جنرل مشرف نے بھی ملکی معیشت کو دستاویز کے بندھن میں باندھنے کی کاوش کی مگر ناکام ہوئے،تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے اپنے منشور میں ٹیکسوں میں عدل کی پالیسی 100ایام کے اندر اندر لانے اور نافذ کرنے کی نوید سنائی مگر یہ عہد بھی وفا نہ ہو سکا،قریباً تمام حکومتوں نے اپنے اپنے دور میںٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی ہیں تاکہ کالا دھن سفید ہو سکے مگر اس کا بوجھ بھی قومی خزانہ کو اٹھانا پڑا ہے۔ایمانداری سے ٹیکس ادا نہ کرنے کی ‘‘بدعت‘‘ آج بھی اپنے عروج پر ہے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ رسمی معیشت کا
بڑا نقصان یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا،اس لئے کاروباری طبقہ اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس سرکار کو ادا نہیں کرتا، نتیجہ کے طور پر عوام کو براہ راست بھاری بھر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کے مطابق گذشتہ پچاس برس میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم جی ڈی پی کے 40سے70فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
اسی طرح سرکاری دفاتر میں رشوت کے چلن نے غیر دستاویزی معیشت کو رواج دیا ہے، کروڑوں کی آبادی میں چند لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں، پاکستان میں یہ آمدنی صرف 9فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 30سے55فیصد ہے، یوں سرکار کو اپنے امور مملکت چلانے کے لئے نیا اضافی ٹیکس لگانا اور قرض لینا پڑتا ہے،جس کا پہلا شکار عام فرد بنتا ہے، اس کا ہی یہ ثمر ہے کہ 1980سے2018تک پاکستان کی شرح نمو 4.75فیصد رہی ہے۔
ماہرین کی رائے ہے کہ اہل وطن جو صاحب ثروت ہیں ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں تو حکومت کو چار کے بجائے نوہزار ارب کی اوسط آمدنی ہونے کے امکانات ہیں، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے اگر بالفرض ارض وطن کی معاشی ترقی کی شرح8.3فیصد کی رفتار سے بھی ترقی کرے اور دستاویزی معیشت کا مربوط نظام نہ ہو تو بھی2050 تک یہ ریاست معاشی تعاون برائے ترقی کی تنظیم کے اراکین میں پیچھے رہے گی، اس کے بچے تعلیم سے محروم ہی رہیں گے۔
قومی معیشت کو دستاویزی شکل میں نہ لانے میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں، اس کو باضابطہ سانچہ میں ڈھالنے میں کس کا مفاد وابستہ ہے، اس سے عام شہری لا علم ہے، اس وقت جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، بینکوں کے نظام نے جدت اختیار کر لی ہے، روپیہ پیسہ بھیجنے کے نئے طریقہ کار مستعمل ہیں، اس کے باوجود آج بھی کیش کی صورت میں لین دین کیا جا رہا ہے، حالانکہ شہر ہو یا دیہات ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے۔
کہا جاتاہے کہ منظم کاروباری سرگرمیوں کے باوجود بہت سی کمپنیاں اِس دور میں بھی اپنے ملازمین کو تنخواہیں کیش کی صورت میں ادا کرتی ہیں، ملک بھر کی منڈیوں میںآڑھتی سارا کاروبار جس کا حجم ٹریلین کی مالیت کا ہے وہ بھی سارا لین دین کیش میں کرتے ہیں، پٹرولیم کی خریدو فروخت بھی کیش میں ہوتی ہے اس وقت بلاواسطہ ٹیکس جمع کرنے کا یہ موثر ہتھیار ہے، ہوٹلنگ کا سارا کاروبار بھی کیش میں ہورہا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے فروغ میں بڑا کردار ٹھیکیداری نظام کا ہے،اس طرح ٹرانسپورٹ کا سارا نظام بھی کیش پر چلتاہے،اس وقت شہری اور دیہی علاقہ جات میں جتنے بھی ریٹیلرز کاروبار کر رہے ہیں انکی آمدن کا کوئی ریکارڈ سرکار کے پاس نہیں ہے،آٹو موبائل صنعت کا سارا نظام ایڈوانس رقم کی صورت میں چلتا ہے، کاروباری اصطلاح’’ اون ‘‘کی رقم کیش کی صورت میں ڈیلرز کو دی جاتی ہے،جس کا کوئی باضابطہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جاتا، سمگلنگ، ہنڈی کے علاوہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں کیش کی منتقلی بھی سرکار کو کاروباری طبقہ کی آمدنی کا تخمینہ لگانے میں اندھیرے میں رکھتی ہے، قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ وہ چور دروازے ہیں جو ملکی معیشت کو دستاویزی صورت میں لانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پوری دنیا میں ضرویات زندگی کی ہر شے کی خریداری بذریعہ بنک کارڈ کی جاتی ہے، جہاں کسی بھی کاروبار کی معاشی سر گرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے وہاں ٹیکس کا تخمینہ بھی بآسانی لگایا جاتا ہے ، محب وطن شہری ٹیکس کی ادائیگی بخوشی کرتے ہیں اور تمام تر مراعات سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ کلچر تاحال پروان نہیں چڑھ سکا ہے، جب معاشرے کی اشرافیہ ٹیکس کو ادا کرنے میں بخل سے کام لے گی، تو عام شہری بھی اس کے نقش قدم پر چلے گا، المیہ تو یہ ہے کہ زکوٰۃ ،عشرجس کو ادا کرنا اللہ کی خوشنودی کے لئے فرض ہے، اس میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا اگر ہر کاروباری اس میں دیانت کا مظاہرہ کرتا ہے اور کاروباری منافع پر رقم مستحقین کو ادا کرتا اور ٹیکس کے حساب کتاب میں ڈنڈی مارتا ہے، وہ بھی ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔
عمومی رائے یہ بھی ہے کہ تمام شہری ٹیکس اس لئے بھی ادا نہیں کرتے کہ وہ مقتدرطبقہ کی عیاشیوں پر خرچ ہو گا، قومی خزانہ حسب روایت خالی رہے گا، تو اس کا علاج بھی دستاویزی معیشت ہی ہے ۔
نجانے ہمارے ارباب اختیار کشکول اٹھانے میں راحت کیوں محسوس کرتے ہیں، وہ قومی وسائل کی حفاظت، اس کے درست مصرف، کاروباری سرگرمیوں کو ریکارڈ پر لا کر عام فرد کو غیر ضروری ٹیکسوں سے آزاد کیوں نہیں کرتے جو بلا واسطہ ان سے ’’گن پوائنٹ‘‘ پر یوٹیلیٹی بلز کی شکل میں لیا جاتا ہے، انکی نااہلی اور کاہلی کی سزا عوام کو آخر کب تک ملتی رہے گی۔اس وقت جبکہ دستاویزی معیشت کے کامیاب ماڈل دنیا میں موجود ہیں، انکو اپنانے میں کونسی دیوار حائل ہے۔
دستاویزی معیشت
08:32 AM, 23 Sep, 2022