دوشنبے کی ایک بزنس کانفرنس میں میرے محترم وزیراعظم ایک شعر کا سامنانہ کرسکے، …میں حیران ہوں اُنہیں کیا ہوگیا ہے؟ انسان چاہے کتنی ہی خوبیوں کا مالک کیوں نہ ہو، حکمران بننے کے بعد اللہ جانے اُن خوبیوں سے وہ محروم کیوں ہو جاتا ہے؟۔ میرا اُن کے ساتھ چوبیس سالہ پرانا تعلق ہے، وہ واقعی خوشامد پسند نہیں تھے، اُن کے سامنے کوئی حدسے زیادہ اُن کی تعریف یعنی خوشامد کرتا وہ اُسے روک دیتے تھے تنقید بھی وہ برداشت کرلیا کرتے تھے، وزیراعظم بننے کے بعد جہاں وہ اپنی دیگر بے شمار خوبیوں سے محروم ہوگئے وہاں اپنی یہ انفرادیت بھی کھو بیٹھے وہ خوشامد پسند نہیں تھے اور تنقید برداشت کرلیا کرتے تھے۔ ان کی یہ خوبی دوسرے سیاستدانوں سے اُنہیں ممتاز کرتی تھی، دوسرا فرق ہم لوگوں کو یہ بتاتے تھے وہ بہت ایماندار ہیں، … یہ فرق بھی خصوصاً اس حوالے سے اب مٹتا جارہا ہے اُن کی ٹیم بے ایمانوں سے بھری پڑی ہے، سو ہم کب تک اُن سے جُڑے ہوئے اِس تاثر کی حفاظت کرسکیں گے،’’ وہ خودبڑا ایماندار ہے؟‘‘ ایمانداری صرف روپے پیسے کی ’’لُوٹ مار‘‘ کرنا نہیں ہوتی، دیگر ’’لُوٹ ماریں‘‘ اگر کوئی کرتا رہے اور کچھ لوگ اُسے مسلسل ’’ایماندار‘‘ قرار دیتے رہیں یہ کچھ لوگوں کے اپنے بے ایمان ہونے کی دلیل ہوتی ہے، … اچھے لوگ کوئی نیک نیتی سے ڈھونڈے وہ ہر شعبے میں موجود ہیں، پر ہمارے حکمران صرف اُنہیں ’’اچھے لوگ‘‘ سمجھتے ہیں جو، اُن کا ہر جائز ناجائز حکم آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیں، علاوہ ازیں خوشامد کے معیار پر بھی پورا اُتریں، … یہ بات طے ہے اب کوئی صرف اپنی اہلیت کے زور پر پاکستان میں نہیں چل سکتا، البتہ کسی شعبے میں کسی شخص کی کوئی اہلیت و تجربہ نہ ہو، وہ صرف خوشامد کے فن سے آشنا ہو وہ صرف چل نہیں سکتا لیٹ بھی سکتا ہے… اللہ جانے کس حوصلے سے اپنے منہ پر اپنی خوشامد کی انتہا لوگ برداشت کرلیتے ہیں؟ اور اِس پر پُھولے نہیں سماتے… میرا تو شرم سے ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے جب میری موجودگی میں میرے بارے میں کوئی ایسے الفاظ کہے جن کا کسی حوالے سے میں حقدار نہ ہوں… یقین کریں میں اُس وقت اِس احساس میں مبتلا ہوجاتا ہوں یہ میری تعریف نہیں کررہا ، میرا ’’ توا‘‘ لگارہا ہے …اگلے روز ایک شخص مجھ سے ملنے آیا، آتے ہی اُس نے کہنا شروع کردیا ’’فلاں شخص آپ کے بارے میں یہ بکواس کررہا تھا، فلاں شخص آپ کے خلاف یہ بھونک رہا تھا، فلاں شخص آپ کی یہ بُرائیاں کررہا تھا… بے شمار لوگ جن کے بارے میں اُسے ہلکا سا یہ شبہ تھا میں ان کے خلاف ہوں یا وہ میرے خلاف ہیں اُن سب کی میرے سامنے بُرائیاں کرکرکے وہ ہلکان ہوا جارہا تھا، میری ’’خوشنودی‘‘ حاصل کرنے کی پوری کوشش وہ کرتا رہا، پھر ایک لمبی چوڑی داستان اپنے مسائل کی اُس نے سنائی اور ایک لاکھ روپے اُدھار مانگے، میں نے اُس سے کہا ’’بھیا آپ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے میں آپ کو اُدھار نہ دُوں… میں نے دس ہزار روپے اُس کی جیب میں ڈالے اور کہا یہ اُدھار نہیں خدمت ہے …ہمارے ہاں اب یہ عمومی رویہ یا روایت ہی بن گئی ہے آپ نے کسی سے اپنا کوئی کام نکلوانا ہو اُس کے پاس جاکر پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید اِس صورت میں باندھتے ہیں کہ اُس کے مخالفین کو بُرا بھلا کہہ کر اُسے خوش کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کا کام کرنے میں آسانی وخوشی محسوس کرے، …میرا معاملہ یہ ہے مجھ سے اگر کوئی یہ کہے فلاں شخص آپ کے بارے میں بڑی بکواس کررہا تھا، میں مسکراتے ہوئے اُس سے پوچھتا ہوں ’’اگر آپ نے میرے خلاف کی جانے والی بکواس مزے لے لے کر سُن لی تو میرا اصل دشمن بکواس کرنے والا نہیں بکواس سننے والا ہے‘‘… اب دوسرا کام لوگ یہ کرتے ہیں اُنہیں جب آپ سے کوئی کام ہوتا ہے وہ آپ کی خوشامد کے پُل باندھ دیتے ہیں، پچھلے دنوں ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے، کہنے لگے ’’بٹ صاحب کل میں اپنے بیٹے کو بتارہا تھا آپ کے انکل توفیق بٹ بڑے عظیم انسان ہیں، جہاں تک اُن کے اُستاد ہونے کا تعلق ہے گورنمنٹ کالج کے مرحوم پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد اُن کے مقابلے میں زیرو تھے، جہاں تک اپنے مضمون ’’جرنلزم‘‘ میں اُن کی مہارت کا تعلق ہے پروفیسر مہدی حسن ایسے صحافت کے اساتذہ کا علم بھی اُن کے علم کے آگے ماند پڑ جاتا ہے، جہاں تک اُن کے کالم نگار ہونے کا تعلق ہے مجیب الرحمان شامی، عطا الحق قاسمی، حسن نثار، عبدالقادر حسن، جاوید چودھری، رئوف کلاسرا، سہیل وڑائچ سب کا کالمی قداُن کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے… میں اُس کے یہ جھوٹ دِل پر پتھر رکھ کر سنتا رہا، … وہ چُپ ہواتو میں نے اُس سے کہا ’’یارتم نے واقعی مجھے اِس احساس میں مبتلا کردیا ہے میں ڈاکٹر نذیر احمد سے بڑا اُستاد ، پروفیسر مہدی حسن سے بڑا ماہر صحافت اور مجیب الرحمن شامی، عطا الحق قاسمی وحسن نثار سے بڑا کالم نگار ہوں، اللہ کے واسطے اب تم میرے اِس احساس کو قائم رہنے دینا، اب مجھ سے کوئی کام نہ کہہ دینا۔ مجھے یہ احساس نہ دلا دینا میری یہ خوشامد تم کسی غرض یا مطلب سے کررہے تھے‘‘…میری یہ بات سُن کر وہ مجھ سے ناراض ہوگیا، بڑی آبدیدائی ہوئی نظروں سے مجھ سے کہنے لگا ’’تم نے مجھے اتناگھٹیا سمجھ رکھا ہے کہ میں تمہارے بارے میں یہ سارے ’’حقائق‘‘ کسی ذاتی غرض یا مطلب سے کررہا ہوں؟ تم نے تو میرا دل ہی توڑ دیا ہے ‘‘…وہ ناراض ہو کر جانے لگا میں نے اُس سے معافی مانگی، میں نے کہا ’’یار میں تو ایسے ہی تم سے مذاق کررہا تھا، تم تو سیریس ہی ہوگئے ہو‘‘… اُس کی اُداسی دیکھ کر میں نے سوچا ہوسکتا ہے اُسے واقعی کوئی کام نہ ہو، میرے بارے میں یہ سارے جھوٹ وہ میری محبت میں بول رہا ہو، … اُس کے آدھ گھنٹے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہونے لگا تو میرے اس احساس بلکہ ’’ اِحساس ندامت ‘‘ میں مزید شدت آگئی کہ ’’اُسے مجھ سے کوئی کام نہیں تھا، یہ سب باتیں وہ صرف میری محبت یا عقیدت میں کررہا تھا‘‘۔ اِس سے پہلے کہ میرا یہ ’’احساس ندامت‘‘ مزید مضبوط ہوتا میرے اُس دوست نے اپنی گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور مجھ سے کہنے لگا ’’یار تمہارے بھتیجے (اپنے بیٹے) کو ایچی سن میں داخل کروانا ہے، گورنر پنجاب چودھری سرورسے تمہارے بڑے ذاتی تعلقات ہیں اُن سے کہو وہ ایچی سن کے پرنسپل سے داخلے کی سفارش کردیں‘‘… یقین کریں میرا جی چاہا قریب پڑی اینٹ اُٹھا کر اُس کے منہ پر ماروں۔ میں نے کہا ’’تم نے تو چند منٹوں کے لیے بھی میرا یہ احساس سلامت نہیں رہنے دیا کہ میں ڈاکٹر نذیر احمد سے بڑا اُستاد، پروفیسر مہدی حسن سے بڑا ماہر صحافت اور مجیب الرحمن شامی، حسن نثار، عبدالقادر حسن ، عطا الحق قاسمی، جاوید چودھری اور رؤف کلاسرا سے بڑا کالم نگار ہوں، کام تو تمہارا میں نے ویسے ہی کردینا تھا، اتنا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اتنی خوشامد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟… میرا خیال تھا میری یہ بات سُن کر میرا یہ دوست شرمندہ ہوگا۔ گاڑی کا شیشہ اُوپر کرکے بھاگ جائے گا۔ پر بے شرم معاشرے کے ایک فردکے طورپر بڑی ڈھٹائی سے میری بات سُنی ان سُنی کرتے ہوئے وہ بولا ’’ملائو فیر فون گورنر صاحب نُوں‘‘ …(جاری ہے)