ڈاکٹر الطاف جاوید مرحوم ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ مذہب، تاریخ اور فلسفہ الطاف جاوید صاحب کے خاص موضوعات تھے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی، ہیگل اور مارکس کے معاشی فلسفے پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اقبالؔ اور ڈاکٹر علی شریعتی کے بہت بڑے مداح تھے۔ 1943 ء کی بات ہے کہ اُن کے والد مرحوم نے انہیں سندھ زمینوں کی دیکھ بھال کیلئے بھیجا ۔ دورانِ سفر ان کی ملاقات ایک بزرگ عبداللہ لغاری سے ہوئی ۔ لغاری صاحب کے مشورے پر وہ مولانا عبید اللہ سندھی سے ملنے پیر گوٹھ جھنڈو میں مدرسہ دارالارشاد پہنچے اور مولانا سندھی کی وفات تک وہیں رہے۔ ڈاکٹر الطاف جاوید طبقات سے پاک معاشرے اور روحانی جمہوریت کے قیام میں ملوکیت کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ طالب ِ علم کو اُن کی جوتیاں سیدھے کرنے کا اعزاز رہا ہے۔ آج کا کالم اُن کی فکر کے چیدہ چیدہ نکات پر مشتمل ہے۔
ملت اسلامیہ کے زوال اور ملی قوتوں کے انتشار کے کئی اسباب ہیں جیسے کہ حیات و کائنات کے کسی منظم نظریے کافقدان، ملوکیت اور بورژوا جمہوریت کو من و عن تسلیم کرنا، جامد ذہن اور مختلف گروہوں میں بٹی ملائیت، رہبانیت زدہ اور حیات گریز متصوفانہ مشائیخت ، مطالعہ و تسخیرِ فطرت سے قرآن کے وا ضح احکامات کے باوجود مجرمانہ غفلت، ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کو شرعی حیثیت سے تسلیم کرنا، قرآن حکیم کے خوف و حزن سے پاک معاشرے کی طرف شعوری حرکت کو نظر انداز کرنا اور اس کے علاوہ اسلام کے عالمی کردار کو پس پشت ڈال کر صرف ملّی پہلوئوں پر ہی زور دینا۔ مگر ان سب سے بڑھ کر زوال کا بنیادی سبب مسلم دانش کا ارتقا کے تصور سے مکمل طور پر پہلو تہی کرنا ہے۔
مذکورہ مسائل اور اسباب زوال پیدا ہی اس وقت ہوتے ہیں جب معاشرہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھتا ہے اور یہ مسائل ارتقا کی ضرورت بن کر سامنے آتے ہیں، اور مسلم دانش انہیں حل کرنے کی جہد کرتی ہے۔ صنعتی اور اشتراکی انقلاب کے وقت بھی یہی ہوا کہ برِصغیر کو اقبال کی شکل میں وہ مفکر اور رہنما میسر ہوا ، جس نے مسلم نظریے کو ان مسائل سے عہدہ برا ہونے میںکامیاب کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اقبال کو ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی جیسا شارح میسر ہوا، جن کی اپنی ذات قدرو منزلت کی حقدار ہے۔ یہ دونوں مفکر طبقات سے پاک معاشرے اور ذرائع پیداوار پر محنت کش اور پس ماندہ و محروم عوام کی دسترس کے قائل تھے۔
جو مسئلہ آج کی ملت اسلامیہ کو درپیش ہے وہ بغداد اور غرناطہ کے سقوط کے بعد محکومی اور فقہی جمود کا ہمارے ذہنوں پر اثر انداز ہونا ہے جس سے نہ صرف نوخیزنسل مغرب کے سیکولر ازم سے بے پناہ متاثر ہوتی چلی جارہی ہے بلکہ اس کے سبب یہ نئی نسل اپنی ملّی جڑوں سے بھی علیحدہ ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں فطرت، معاشرہ اور نفسیات جیسے دیگر مضامین کے مطالعہ اور اس مطالعہ کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کا عمل بڑھتا چلا گیا۔
اس نظر اندازی کی ایک اور وجہ مسلم ذہن کا یونانی
عقلیت اور منطقی استخراجی پر اکتفا کر لینا ہے۔ قرآن حکیم نے فطرت معاشرہ اور انسانی ذہن کے عمیق مطالعے اور ان میں پائے جانے والے قوانین کو سمجھنے کی بار بار تاکید کی ہے ، مگر اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی علم بالقلم یعنی تحقیق کے استقرائی منہاج کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔بغداد اور مسلم اسپین کی تباہی کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی جمود اور تقلید کی روش نے ملت اسلامیہ کو زوال اور شکست کے بھیانک نتائج سے دوچار کردیا۔ یہاں تک کہ بغداد، غرناطہ و قرطبہ میں جو تھوڑی بہت تحقیقی کوششیں ہوئیں، انہوں نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی صبح نمودار ہونے میں مدد دی، جس کی وجہ سے یہ صبح یورپ کے لیے روشن سے روشن ہوتی چلی گئی مگر ملت اسلامیہ بحیثیت مجموعی اندھیروں میں ڈوبتی اور زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔
آج پاکستان جن مسائل کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ ہی ہمارا حقیقی فکری اساس کو فراموش کرنا ہے۔ قوم کا ذہن تو پے درپے مشکلات سے مائوف ہوچکا ہے اور حالت یہ ہوچکی ہے کہ :
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اِک رہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور قوم بھی کیا ہے، بس اک ہجوم ہے ہجوم، جو بنا منزل کا تعین کیے سرپٹ دوڑے چلا جارہا ہے۔ کسی نے سوشلزم کے نام پر آواز دی تو اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی، کسی نے اسلام کے نام پکارا تو اس پر فریفتہ ہوگیا،کسی نے’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی صدا لگائی تو اس کے پیچھے دوڑ پڑے اور جب کہیں سے جہاد کا نعرہ بلند ہوا تو ان کی حمایت میں سینہ سپر ہو گئے۔ مگر بنیادی مسائل جن کے حل ہونے کی صورت ہی میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کی بقا اور خوشحالی کا دارو مدار ہے اس طرف کوئی جانے کو تیار نہیں ا ور بد قسمتی سے کوئی ایسا ہے بھی نہیں کہ جسے دست ہو دلسازی میں اور جو قوم کو جبر و استحصال کے نظام سے نجات دلا سکے۔
ملک کو اس استحصالانہ نظام سے نجات کے لیے جن بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے ان میں پہلی رکاوٹ دینی نقطہ نظر ذرائع پیداور پر نجی ملکیت کو جائز قرار دینا ہے، اسی تصور نے پاکستان سمیت تمام ملت اسلامیہ میں ملوکیت، جاگیرداری نظام اور اشرافیہ اور صنعتی سرمایہ داری کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری رکاوٹ نظریاتی سطح پر قدیم دینی علوم پر اکتفا کر لینا ہے، جس وجہ سے قرآن کی انقلابی تعلیمات کی کرنیں ملت کے ذہنوں تک اپنی پوری آب و تاب اور حقیقی معنی کے ساتھ نہیں پہنچ پائی ہیں۔
اپنی آخری تصنیف ’’انقلابِ مَکّہ سیرتِ نبویﷺ، نزول قرآن کی روشنی میں‘‘ کی تدوین میں انہوں نے علم باتعلم کی اہمیت اور انقلابی جدو جہد کے ہر مرحلے پر نازل ہونے والی قرآنی آیات کو بنیاد بنایا ہے۔ جس سے قرآن اور سیرت کا باہمی تعلق سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
الطاف جاوید صاحب کا نقطہ نظر تھا کہ قرآن کے انقلابی شعور کو علامہ اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی کی تشریح کی روشنی میں آگے بڑھایا جائے، محنت کش، مزدور اور پسے ہوئے طبقوں میں اس انقلابی شعور کو اجاگر کیا جائے اور ابنیاء کرام نے اپنے اپنے عہد کے معاشروں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے جو جاں گسل جدوجہد کی ، اس سے بہرہ ور کردیا جائے تو معاشرے میںمثبت اور باوقار انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔