امریکی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی شکست کی ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر ڈالناچاہتے ہیں۔ افغانستان میں اکیلا امریکہ نہیں ہارا بلکہ اس کا پورا اتحاد شکست سے دوچار ہوا ہے ۔ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے مگر افغانوں نے اپنی شرائط کے تحت کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے۔ وہ طاقت کے زور پر کابل میں داخل ہوئے ہیں حالانکہ اندازے تو یہ لگائے گئے تھے کہ طالبان تین ماہ تک کابل میںداخل نہیں ہوں گے مگر سارے منصوبے ناکام ہو گئے اور تین لاکھ فوج جس نے طالبان کا راستہ روکنا تھا وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ کسی جگہ کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور پہلی بار پنجشیر بھی طالبان کے پاس آ گیا ۔ اس خطہ میں بھارت اور ایران اس پیش قدمی پر تلملا رہے ہیں۔ طالبان افغانستان میں کس طرح کا طرز حکومت رائج کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر ایک بات طے ہے کہ وہ اس حوالے سے کسی کے دبائو میں نہیں ہیں۔ امارات اسلامی کی بحالی کے لیے انہوں نے کام شروع کر دیا ہے۔ یہ آوازیں پاکستان سے بھی اٹھ رہی ہیں کہ افغانستان کا پرانا نام اور جھنڈا رہنا چاہیے ۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہم یہ با ت کیوں کر رہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ وہاں کے عوام اور حکومت نے کرنا ہے۔ کون سا نظام ہو گا کیسا نظا م ہو گا کہ یہ فیصلہ ان کا کام ہے ہاں یہ ضرور دیکھنا ہو گاکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو نہیں ہو رہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ غاصب قوتیں زیادہ دیر تک کسی ملک یا قوم پر قابض نہیں رہ سکتی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے وہ ہمیشہ اس قوم کے ان لوگو ں پر مشتمل حکومت بناتے ہیں جو ان کے اشاروں پر ناچے۔ افغانستان میں یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ وہاں عوام کی مرضی اور منشا جاننے کے لیے انتخابات بھی ہوئے جس کے نتیجہ میں اشرف غنی کی حکومت قائم کی گئی۔ یہی کام عراق میں ہوا اور یہی کام بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں کر رہا ہے لیکن ایک روز غاصب قوتوں کو وہاں سے رخصت ہونا ہے۔ افغانستان کی زمین پر امریکی قابض تھے مگر افغانوںکے ذہن وہ مسخر نہ کر سکے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔افغان دارالحکومت کابل پر سرکاری فورسز کی جانب سے کسی مزاحمت کے بغیر طالبان کا قبضہ جہاں دنیا بھر کے لئے حیرت و استعجاب کا باعث ہے وہاں خود طالبان قیادت بھی انگشتِ بدنداں ہے، اُسے بھی صرف 10روز میں امریکہ نواز اشرف غنی حکومت کے انہدام اور پورے افغانستان کی فتح کی امید نہیں تھی۔ سقوطِ کابل کے ساتھ ہی 20سال کی صبر آزما جدوجہد اور ہزاروں جانوں کی قربانی کے بعد افغانستان میں ’امارت اسلامی‘ کی بحالی بلاشبہ طالبان کی بہت بڑی فتح ہے لیکن آنے والے وقتوں میں اسے قائم و دائم رکھنے کے لئے انہیں اس سے بھی بڑی آزمائشوں سے گزرنا ہوگا۔ امریکی صدر بائیڈن نے حال ہی میں بڑے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ افغانستان کی 3لاکھ فوج جو جدید ترین تربیت اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے، 70ہزار بے ساز و سامان طالبان کو کیسے ملک پر قبضہ کرنے دے گی لیکن ثابت ہوا کہ محض عددی طاقت جذبے کی قوت پر غالب نہیں آسکتی۔
امریکہ نے افغانستان میں رہنے کی ایک بڑی قیمت چکائی ہے۔89ارب ڈالر کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ اس جنگ نے ایک بات ثابت کر دی کہ جنگ اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی کے بجائے حوصلے اورہمت سے جیتی جاتی ہے۔ تمام تر ترقی کے باوجود جنگ کے لیے وار روم کے بجائے میدان جنگ میں اترنا ضروری ہے۔اشرف غنی جب خودفرار ہو گیا تو اس کی فوج کس کی کمان میں لڑتی جب لیڈر ہی فرار ہو جائے تو پھر فوج تتر بتر ہو جاتی ہے۔ کابل میں بھی یہی ہوا۔تین لاکھ فوج کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ اسے یہ تربیت ہی نہیں دی گئی تھی کہ اگر کمانڈر نہ رہے تو کس کو کمانڈ کرنا ہے۔وہ لڑنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وہ تو ملازمت کر رہے تھے۔ اپنے کنبے کے نان و نفقہ کا بندوبست کر رہے تھے۔
عمران خان کی حکومت نے افغانستان میں مخلوط حکومت لانے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ افغانستان کے تمام گروپوں اور گروہوں کو ایک میز پر لانے کے لیے پاکستان کو اپنا کردار ضرور اد اکرنا چاہیے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کسی کی معافی کی درخواست کریں اور طالبان پر یہ زور دیں کہ وہ فلاں جماعت کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کریں۔ اس قسم کی کسی بھی کوشش سے ہماری پوزیشن خراب ہو جائے گی۔ ہم انہیں اکٹھے بٹھا سکتے ہیں اور ان میں مذاکرات کے عمل کو شروع کرا سکتے ہیں مگر حکومت میں کس کو شامل کرنا ہے اس کا فیصلہ طالبان نے ہی کرنا ہے۔ افغانستان میں پہلے ہی ایک گروپ پاکستان کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ آوازیں مردوں سے زیادہ عورتوں کی ہیں۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اگر طالبان ان عورتوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو دنیا بھر میں طالبان کے خلاف آواز بلند کی جا سکے۔ یہ بھی درست ہے کہ طالبان کو خود اس بات کا احساس نہیں تھا کہ کابل اتنی جلدی ان کی جھولی میں آ گرے گا اس لیے شاید وہ تمام تر تیاری نہیں کر سکے تھے مگر اب آہستہ آہستہ انہو ںنے اپنی گرفت کو مضبوط کرنا شروع کیا ہے۔
افغانستان کے مختلف علاقوں سے یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ طالبان انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کو چھین رہے ہیں اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنار ہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان اپنی حکومت کا موقف دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں لیکن خود طالبان قیادت کو بھی سامنے آناچاہیے اور لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے یقین دہانیاں کرانی چاہئیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو ساتھ ملا کر نظام حکومت کو چلانے کی کوشش کرنا بھی ضرور ی ہے ۔ صرف ڈنڈا چلا کر آپ لوگوںکو خاموش تو کرا سکتے ہیں کہ مگر یہ امن دیرپا نہیں ہوتا۔ مدارس ، یونیورسٹیوں اور ہسپتال کے نظام کو پہلے سے بہتر بناکر پیش کریں گے تو لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ طالبان ان کی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی چلائیںگے ۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان کے وفاق المدارس کے زیر اہتمام افغانستان میں مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور اس حوالے سے طالبان اور وفاق المدارس کی قیادت کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے۔ ان مدارس کے ذریعے لوگوں کو عصری اور دینی علوم سکھانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر طور پر چلانے کے لیے بھی پاکستان کو اپنی خدمات کو پیش کرنا چاہیے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان میں بھارت سے اساتذہ تعلیم کے لیے آتے تھے اب طالبان کے دور میں یونیورسٹیوں اور سکولوں میں پاکستان کے اساتذہ کو بھیجناضروری ہے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو ان افغانوں کو وہاں تعینات کرایا جائے جو ہماری یونیورسٹیو ں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد عرصہ تیس برس سے پاکستان میں مقیم ہے اور ان میں سے بہت سے یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوںکے دروازے افغانستان کے طالب علموں پر کھولنے کی ضرورت بھی ہے تاکہ بھارت نے جو مذموم پروپیگنڈہ افعانستان میںپاکستان کے خلاف کیا ہے اس کا توڑ کیا جا سکے۔ ہسپتالوں کے نظام کو موثر بنانے کے پاکستان اپنی خدما ت کو پیش کرے تاکہ طالبان کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔