تین سال پہلے جب عمران خان کی حکومت پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر اثرورسوخ کی بدولت منتخب کرا کے برسراقتدار لائی گئی تھی تب نئے نویلے وزیراعظم کے بارے میں رائے عامہ بٹی ہوئی تھی۔ عوام کی ایک تعداد خوش تھی کہ تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ تحریک انصاف کے کارکن خود کو نئے اور بڑے انقلاب کا ہراول دستہ قرار دیتے تھے۔ میڈیا کا ایک طاقتور حصہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ یا واضح تر الفاظ میں حاضر سروس جرنیل مطمئن تھے کہ پس پردہ بیٹھ کر سول حکومت کی طنابیں ہاتھ کر مرضی کی پالیسیوں کو فروغ دینا آسان تر ہو جائے گا۔ دوسری جانب رائے عامہ کا معتدبہ حصہ، اہل دانش اور اصحاب الرائے کا بڑا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اس خیال کے اظہار میں پیچھے نہیں رہتے تھے کہ کرکٹ کا کامیاب کھلاڑی اپنی ناتجربہ کاری اور بڑبولے پن کی وجہ سے سیاست کے میدان میں وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جن کی بہت زیادہ توقع کی جارہی ہے۔ جلد ناکامیاں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی۔ کلیمر ٹوٹ جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور عناصر کے اندر بیزاری جنم لے لے گی۔ وہ متبادل کی فکر کرنے میں لگ جائیں گے۔ اسی بحث و کشمکش نے تین سال گزار دیئے۔ آج یہ کیفیت ہے عمران خان کی قدم قدم پر ناکامیوں کا چرچا زبان زدعام ہے۔ رائے عامہ بٹی نہیں رہی۔ ایک نکتہ جس پر تحریک انصاف کے وزراء اور اس کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی کے علاوہ پوری قوم کا اتفاق رائے ہے وہ یہ ہے موجودہ وزیراعظم اور اس کے خوشامدی ساتھی حکومت چلانے کی اہلیت قطعاً نہیں رکھتے۔ تین سال کے تجربوںسے بھی انہوں نے زیادہ نہیں سیکھا۔ انہیں بیان بازی کا بہت شوق ہے۔ یہ موثر نہیں ثابت ہوتی تو سرعام یہاں تک کہ ایوان ہائے اسمبلی کے اندر کھڑے ہو کر گالیوں پر اتر آتے ہیں۔ معاشی کامیابیوں میں سے صرف ایک کا دن رات چرچا کرتے ہیں کہ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب ان کے پہلے دو سالوں کے مقابلے میں بڑھا ہے۔ ماہرین اس دعوے کو بھی خلاف واقع بتاتے ہیں مگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے عہد حکومت کے مقابلے پر بہت تھوڑا ہے۔ وہ پونے چھ فیصد کے لگ بھگ چھوڑ گئے تھے۔ خان بہادر کے سبز قدموں کی بدولت گراف بہت نیچے آن گرا ہے۔ ان کے الفاظ میں اس نے بڑھوتی بھی لی ہے تو بمشکل ایک فیصد حد تک مگر ماہرین معاشیات یہ سن کر بھی مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ ن لیگ والے اس کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں جبکہ پرلے درجے کی معاشی ناآسودگیوں سے سخت تنگ آئے عام آدمی کی چیخ و پکار ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ مہنگائی نے صرف اس کی کمر توڑ کر نہیں رکھ دی جینا اس حد تک محال کر دیا ہے کہ سکون کے ساتھ سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ بیروزگاری صبح شام ان کا منہ چڑاتی ہے۔ تمام تر حکومتی وعدوں اور سبز باغ دکھانے کے دعوئوںکا بطلان کرتی ہے۔ معیشت اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ سارا انحصار بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر اور قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ پر ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہیں ہو پارہا جبکہ درآمدات خزانے کیلئے بوجھ بنی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف جس کے پاس جانے کو وزیراعظم پہلے خودکشی کے مترادف سمجھتے تھے پھر منت ترلہ کر کے اذن حاضر ی ملا۔ اسی اثناء میں چار وزرائے خزانہ کو تبدیل کیا۔ وہاں سے ایک دو قسطوں کی صورت سخت شرائط والے قرضوں کی خیرات ملی۔ لمحہ موجود کے اندر اسے بھی روک لیا ہے کیونکہ ایک تو اپنی داخلی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ دوسرے امریکہ وزیراعظم ہمارے کو منہ لگانے کو تیار نہیں ۔
مگر اے قارئین باتمکین جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں عمران بہادر کی کارکردگی کی یہ المیاتی داستان صرف معاشی ناکامیوں تک محدود نہیں۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں جو خاک اڑ رہی ہے اس کی گرد نے پورے عالم کی نگاہوں میں ہمارے قومی چہرے کو آلودہ کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک ہمیں گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ،امریکہ کیا چین کیا۔ عرب دوست منہ موڑ چکے ہیں۔ ایران اور کئی ہمسایہ ملک سوائے سخت مجبوری کے عالم میں رسمی بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ماسوائے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان ایک قابل ذکر سربراہ حکومت یا ریاست نے اس عہد میں پاکستان کا دورہ نہیں کیا شہزادہ محمد بھی ابتدائی دنوں میں آئے تھے۔ اب مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ کشمیر پر ایک رسمی قرارداد سلامتی کونسل تو دور کی بات ہے۔ او آئی سی جسے ہم گھر کی بات سمجھا کرتے تھے وہ بھی بھارت کے 5اگست 2019ء جیسے پرلے درجے کے غاصبانہ اقدام پر قرارداد مذمت کیا حرف ملامت کہنے کو تیار نہیں۔ ملک افغانستان میں جو حالیہ سٹریٹجک کامیابی پاکستان کو حاصل ہوئی ہے اس کی فصل کئی دہائیوں سے پک کرتیار ہو رہی تھی۔ عمران آیا تو پھل لامحالہ ٹوٹ کر اس کی جھولی میںآن گرا ہے۔ لیکن اس کی ناپختہ ڈپلومیسی نے اتنے اہم معاملے پر بھی ایسا کھوکھلا پن دکھایا ہے کہ کچھ پہلوئوں سے لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں۔ جس قسم کی جامع (Inclusive) حکومت بنانے کی خاطر امریکہ وغیرہ کے دبائو میں آکر کابل طالبان انتظامیہ کو مجبور کیا جا رہا ہے وہ اس پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اب انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ نہ مانو گے تو خانہ جنگی کو بھگتو گے۔ بہتر ہوتا ایسے امور انہیں 15 اگست کو ’’پرامن‘‘ طریقے سے اقتدار منتقل کرنے سے پہلے منوا لئے جاتے۔ ہمارے وزیراعظم بہادر کے اس وصف کا بڑے زوروشور سے چرچا کیا جاتا ہے کہ نواز شریف کے مقابلے میں انگریزی بہت اچھی بول لیتے ہیں (سبحان اللہ) لیکن بالاخانے کا یہ عالم ہے کہ شروع کے دنوں میں یہ جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ملا کر نقشہ عالم پر نیا جغرافیہ تخلیق کر دیا۔ اب تازہ ترین افغان صورتحال پر انٹرویو کے دوران سی این این کو یہ کہہ ڈالا حقانی نام کا بڑا قبیلہ ملک افغاناں میں پایا جاتا ہے جس سے جلال الدین حقانی مرحوم اور آج کے سراج الدین حقانی وغیرہ کا پیدائشی تعلق ہے۔ دوبارہ انتخابات جیتنے کے چیلنج کا سامنا کرنے والے ہیں۔ اس کی خاطر الیکٹرک ووٹنگ مشینوں اور آئی ووٹنگ کی تدبیریں آزمانا چاہتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے ڈٹ کر ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پوری آئینی طاقت کے ساتھ یہاں تک کہ دو حکومتی وزراء سے سرعام گالیاں کھا کر اور ماہرین کی ایک سے زیادہ ٹیموں نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی اور یک آواز ہو کر کہا اس سے نئی بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے دروازے کھلیں گے مگر کھلاڑی نے اپنی تجویز کو ضد اور انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔اس امر نے ایک بڑے قومی تنازع کو جنم دے دیا ہے۔ اگر جاری رہا تو 2023ء کیا اس کے بعد بھی پرامن اور شفاف طریقے سے انتخابات کا انعقاد مشکل تر ہو جائے گا۔
اس ساری صورتحال نے پاکستانی قوم اور ریاست کو جس بحران سے دوچار کیا ہے وہ محض عمران بہادر کے تین سالہ دور کی پے در پے ناکامیاں اور لاینحل مسائل نہیں جنہیں ان کی مسند اقتدار پر جلوہ افروزی نے جنم دیا ہے اور جیسا کہ بطور بالا میں عرض کیا گیا ہے ان پر دو رائے باقی نہیں رہیں بلکہ اصل قضیہ جو ہم اہل پاکستان کو آن درپیش ہوا ہے وہ اس عظیم ریاست کے وجود کو پہنچنے والی زک کا ہے جس کی ٹھیس شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے یعنی تنزلی صرف عمران خان کے طرز حکومت کی نہیں ہوئی ریاست پاکستان کو بھی روگ لگنا شروع ہو گیا ہے جو بہت بڑے المیے کی بات ہے۔ عمران آج نہیں کل چلا جائے گا اس کی ناکامی ان کا منہ چڑائے گی جو اپنی غیر آئینی طاقت و رسوخ کی بناء پر اسے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اپنے تئیں بڑا تجربہ کیا تھا یعنی حکومت بظاہر سول والوں کی ہو گی۔ اصل حکمرانی کے مالک وہ خود ہوں گے۔ چلمن کے پیچھے بیٹھ کر مسلسل تاریں ہلائیں گے۔ صاف چھپیں گے بھی نہیں، کھل کر سامنے بھی نہیں آئیں گے۔ آئین کی بالادستی اور پارلیمانی جمہوریت کے تصورات یا قائداعظم کا تصور پاکستان کتابوں میں بند ہو کر رہ جائے گا۔ یوں تاریخ انسانی کے موجودہ موڑ پر ایک ریاست کو کامیابی اور نتیجہ خیر طریقے سے چلانے کی تمام کامیاب تجاویز کو بوٹوں تلے روندھ کر رکھ دیا جائے گا تاکہ امورِ مملکت پر قوم کے متفق علیہ آئین کی بجائے ان کی بالادستی قائم رہے۔ دوہری حکومت کا یہ تجربہ بھی بری طرح ناکام رہا ہے۔ ان تمام منفی پیش رفتوں نے باہم مل کر وہ دن دکھایا ہے کہ بیرونی دنیا میں جس سبز پرچم کو عزت دلانے کا بلندبانگ اہم دعویٰ کیا گیا وہ تار تارہو گیا ہے۔ بڑی کرکٹ ٹیموں نے آنے سے جو صاف انکار کر دیا ہے وہ بھی عمران خان جیسے ورلڈ کپ جیتنے والے کھلاڑی کے عہدِ حکومت میں اس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے۔
شیخ آئے جو حشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
یعنی جس ورلڈ کپ کی قیمت قوم کو ایک نااہل کی وزارت کی صورت میں چکانا پڑی ہے اس کھیل کے دائو طریقے بھی ان کی ذات کے اندر زنگ آلودہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ کوئی اس نام نہاد کامیاب کھلاڑی کی ساکھ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ کہتا ہے دنیا بھر سے آنے والی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو مکمل ریاستی سکیورٹی فراہم کروں گا۔ باہر کی دنیا والے انگریز ہوں، نیوزی لینڈرز یا کوئی اور منہ موڑ دیتے ہیں۔ نقصان اس کا برے طریقے سے ریاست پاکستان کے عالمی وقار اور حیثیت کو پہنچا ہے مگر یہ صاحب گھر کے اندر اور بنی گالہ کے وسیع و عریض اور عالیشان محل میں ان قیمتی تحائف کو چھپائے بیٹھے ہیں جو چیز بیرونی دوروں کے دوران رواج دنیا کے مطابق میزبان حکومتوں کی جانب سے عطا کی جائے وہ جو ریاست پاکستان کی ملکیت ہوتی ہے یہ تحائف توشہ خانہ میں سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔ ایک آدھ تحفے کو متعلقہ سربراہ حکومت یا مملکت مقررہ تناسب سے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکتا ہے بعد میں ایک ترجمان یوں گویا ہوئے کہ اس کے وزیراعظم بہادر نے ان میں سے جنہیں اپنے پاس رکھا اس کی 50فیصد قیمت ادا کی گئی سوال یہ پیدا ہوتا ہے قوم کو یہ بتانے میں آخر کیا امر مانع ہے کہ کونسا تحفہ کہاں سے ملا اور جس تحفے کی 50فیصد قیمت ادا ہوئی۔ (کوئی بھی کروڑوں سے زائد کی مالیت کا نہیں ہوتا ) وہ پیسے ان کے پاس کہاں سے آئے۔ وزیراعظم کو جو تنخواہ قومی خزانے سے ملتی ہے اس سے تو بنی گالہ کے محل کا ماہانہ خرچہ نہیں چلتا۔ یوں اس طرزعمل کو طشت از بام کر کے پوری دنیا کے سامنے اپنی امانت و دیانت کا بھانڈہ پھوڑ ڈالا گیا ہے۔ ریاست پاکستان کے دامن پر بدنامی کا جو دھبہ لگا ہے سو علیحدہ ہے۔