سچ پوچھیں تو مجھے عمران خان کے نااہل ہونے کی کوئی خوشی نہیں بلکہ افسوس ہے کہ وہ شخص جو دوسروں کو چور اور ڈاکو کہتا رہا وہ خود بھی ایسا ہی تھا۔ اس نے اپنی آمدن اور اثاثوں کو چھپائے رکھا۔حکومت کا یہ کہنا ہے کہ یہ تو ابھی ابتدا ہے اور بہت کچھ ان کے خلاف موجود ہے۔ کاش ہم غلط ثابت ہوتے اور کوئی تو ایماندار شخص مل جاتا۔ توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کو بیچ کر جو رقم ملی اس سے بنی گالہ کی سڑک بنانے کا دعویٰ بھی جھوٹا نکلا اور پتہ چلا کہ وہ سڑک بھی سی ڈی اے نے بنائی تھی۔ ویسے بنی گالہ کی سڑک بنانے کے احکامات نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس وقت جاری کیے تھے جب وہ عمران خان سے ملنے بنی گالہ گئے تھے اور عمران خان نے ان سے درخواست کی تھی کہ بنی گالہ کی سڑک بنا دی جائے۔ الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف جو ریفرنس دائر ہوا اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں شامل نہیں کیا اور انہیں بیچ کر جو آمدنی ہوئی وہ بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ الزام سچ ثابت ہو گیا اور عمران خان نے ان سوالات کا جواب مبہم طریقے سے دیا۔ چلیں الیکشن کمیشن میں جواب جمع نہیں کرایا تو کوئی بات نہیں اب ہی بتا دیں کہ سچ کیا ہے، اپنے ٹیکس گوشوارے عوام کے سامنے رکھ کر حکومت کو غلط ثابت کر دیں۔ عمران خان کی بے چینی اور کرسی کے لیے بیتابی کو سمجھنے کے لیے اتنا سمجھنا کافی ہو گا کہ اتنی دولت انہوں نے اپنی ساری زندگی میں نہیں کمائی جتنی دولت انہوں نے وزیراعظم بن کر کمائی اور یہ کمائی ان کی تنخواہ کی نہیں ہے بلکہ ملنے والے تحائف کو بیچنے سے ہوئی۔ عمران خان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو سب سے پہلا کام کیا تھا وہ تنخواہ بڑھانے کا تھا کہ اس تنخواہ میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ ویسے قسمت کا دھنی ہے کہ اس نے ساری زندگی لوگوں کے پیسے پر ہی عیاشی کی ہے۔ ساری زندگی اس طرح پیسہ اکٹھا کیا جس کا کوئی آڈٹ نہیں ہو سکتا۔ دس بیس روپے سے چندے کا آغاز ہوا اور پھر یہ چندہ اربوں تک چلا گیا۔ دس بیس روپے سکول اور کالج کے طالب علموں سے لیے گئے اور اربوں روپے ابراج گروپ اور ملک ریاض سے لیے گئے۔
عمران خان کا میڈیا سیل کہانیاں بنانے اور چلانے میں ماہر ہے اور ان کی امانت اور دیانت کی ایسی ایسی کہانیاں گھڑی جاتی تھیں کہ الحفیظ الامان۔ یہ بات ایک عرصہ تک کی جاتی رہی کہ عمران خان نے اپنے سسر کی اس آفر کو قبول نہیں کیا تھا کہ وہ ان سے پیسہ لے کر کاروبار کرے، جمائما گولڈ اسمتھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس کو سفید جھوٹ اور کہانی قرار دیا۔ یہ کہانی بھی خوب چلی کہ ایک بیٹ پر دستخط کرے تو وہ بیٹ کروڑوں میں بکتا ہے، کیا خوب ہوتا
کہ ہمارا حکمران روز ایک دو بیٹوں (bats)پر دستخط کرتا اور ملک کا قرضہ اتر جاتا یا کم از کم اپنی ضرورتیں پوری کر لیتا۔ ہماری تاریخ سنہری حروف سے لکھی جاتی کہ برصغیر کا ایک حکمران ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتا تھا اور دوسرا بیٹ پر دستخط کر کے۔ اپنی تشہیر کے لیے اس نے کئی دہائیاں صرف کی ہیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ سے لے کر کینسر ہسپتال بنانے تک، سب کچھ اس کے گرد گھومتا رہا اور پھر 1996 میں انہوں نے یہ نعرہ لگا دیا کہ سب چور ہیں اور نئی پارٹی کی تشکیل کی۔ اس کے پیچھے کس کا ایجنڈا تھا اور کس نے انہیں اس جانب راغب کیا اس کے لیے ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید کی گواہی کو پڑھ لیں تو کافی ہو گا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ حمید گل نے ان کے حوالے سے بہت سی اچھی باتیں کی تھیں، بالکل کی تھیں کیونکہ انہیں سیاست میں لانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے، وہ خود صدر بننا چاہتے تھے لیکن عمران خان کو جو لوگ لا رہے تھے وہ حمید گل کو برداشت نہ کر سکے اور انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ سیاست میں آئے تو ان کا نعرہ تھا کہ کرپشن کو 90 دن میں ختم کیا جا سکتا ہے، لوٹی ہوئی دولت جو باہر بنکوں میں پڑی ہوئی ہے اسے واپس لا کر خزانے کو بھرا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف میں جانے سے بہتر ہے خودکشی کر لی جائے۔ دنیا میں پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت ہو گی اور پاکستان کو ٹورازم کا گڑھ بنا دیا جائے گا۔ ملک میں جابز اتنی زیادہ ہوں گی کہ لوگ باہر آ کر یہاں نوکریاں کریں گے، نظام عدل کو درست کیا جائے گا، سول سروس میں تعیناتی میرٹ پر ہو گی، پولیس کا نظام درست کیا جائے گا لیکن یہ سب کھوکھلے نعرے تھے۔ کسی یوتھیے نے عمران خان سے نہیں پوچھا کہ جناب ان وعدوں کا کیا ہوا۔ چور اور ڈاکو انصاف لانڈری میں دھل کر اجلے بن گئے۔ لوٹی گئی دولت کا ایک فیصد بھی واپس نہیں لایا جا سکا۔ میرٹ پر عثمان بزدار کو لگا دیا گیا، چار برس میں بے شمار آئی جیز تبدیل ہوئے۔ شائد انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ حکمران ایماندار ہو تو پورا نظام ٹھیک ہو جاتا ہے۔ وہ خود طاقت اور پیسے کے پیچھے بھاگتے رہے نظام کو کیا ٹھیک کرتے۔
الیکشن کمیشن نے جب عمران خان کو نااہل کیا تو خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ ملک بند ہو جائے گا۔ عمران خان کو بھی اس فیصلے کا اندازہ تھا اس لیے رات کو ہی تمام تنظیموں تک یہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ ملک کو جام کر دیں۔ اس نا اہلی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہوں گے اور لوگ باہر نکل آئیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جہاں پر بھی احتجاج ہوا وہاں پر موجود لوگوں کی تعداد پچاس اور سو سے زیادہ نہیں تھی۔ عمران خان ہماری ریڈ لائن کے نعرے سوشل میڈیا پر بلند ہوئے اور عوام میں آکر دم توڑ گئے۔ کراچی میں علی زیدی اور ان کے ساتھ موجود پورے ایک درجن رہنماؤں نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھنے کے بجائے ریڈ پٹی باندھی کہ عمران ہماری ریڈ لائن ہے۔ علی زیدی کا شکریہ کہ لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی کہ ریڈ لائن یہ ہوتی ہے۔ شکر ہے انہوں نے بسوں کی طرف اشارہ نہیں کر دیا کہ ہم بس کے روٹس کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ یہ گرین لائن ہے یہ پیلی اور یہ سرخ۔ لوگوں کو شائد سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے کہ مہاتما ایماندار نہیں بلکہ دوسروں کی طرح کا ایک حکمران ہے جسے صرف اپنے اقتدار سے مطلب ہے۔
عمران خان نے اپنی نا اہلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا اور بیرسٹر علی ظفر نے ان کی جانب سے درخواست جمع کرائی اور استدعا کی اس درخواست کی سماعت آج ہی کی جائے۔ عدالت نے اعتراضات کے باوجود درخواست کو قبول کرلیا اور پیر کے لیے سماعت کو فکس کر دیا۔ اب پیر سے چیف جسٹس اطہر من اللہ اس درخواست کی سماعت کا آغاز کریں گے۔ ظاہر یہ ایک عمل ایک دو روز میں مکمل نہیں ہو گا۔ پہلا نکتہ یہی ہو گا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اس درخواست پر سماعت کا اختیار تھا اور دوسرا نکتہ یہ ہو گا کہ جو سزا دی گئی ہے کیا الیکشن کمیشن وہ سزا دینے کا مجاز تھا؟ چلیں یہ اچھی بات ہے کہ تحریک انصاف نے فیصلہ سڑکوں کے بجائے عدالتوں کے ذریعے کرنے کی راہ اپنائی ہے۔ سو اب انتظار کریں اور مہاتما کے پاک صاف ہونے تک وضاحتیں پیش کریں۔
عمران خان ہماری ریڈ لائن
09:05 AM, 23 Oct, 2022