مہنگائی،مہنگائی،مہنگائی ہر طرف صرف ایک ہی چرچہ ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اپوزیشن کو بھی ہوش آ گیا ہے اس نے بھی گزشتہ روز سے مظاہرے شروع کر دیئے ہیں پی ڈی ایم،پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی علیحدہ علیحدہ مہنگائی کے خلاف جلوس نکال رہے ہیں جس کے بعد حکومتی ایوانوں سے بھی ایسی باتیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے فارمولا بننے شروع ہو گئے ہیں۔وزیر اعظم صاحب نے بھی بالآخر نعرہ لگا دیا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے گا لیکن مہنگائی کا ملبہ پھر تاجروں پر ڈال دیا اور عزم کیا گیا کہ مہنگائی کرنے والے تاجروں کو نہیں چھوڑا جائے گا اس دوران وہ شاید یہ بھول گئے کہ مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے وہ شائد یہ بھی بھول گئے کہ گزشتہ روز ان کے لگائے گئے گورنر سٹیٹ بنک نے فخریہ اعلان کیا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے کے فوائد کیا ہیں اس سے قبل ان کے فاضل وزراء بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ پٹرول مہنگا کرنا ان کا فرض تھا کیونکہ یہ خطے میں سب سے سستا پاکستان میں ہے اس دوران وہ یہ بھول گئے کہ خطے میں سب سے کم آمدنی بھی پاکستان میں ہیں اس پر فاضل وزراء کی ابھی نظر نہیں پڑی کہ اس بارے میں کچھ سوچیں۔ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی اگر ملبہ تاجروں پر ڈال کر اپنی جان بچانے کی بجائے اگر ڈالر اور پٹرول سستا کر دیں تو مہنگائی خود بخود کنٹرول ہو جائے گی اور کسی پر الزام بھی نہیں لگانا پڑے گا۔ہماری فاضل حکومت کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی موجودگی میں اکنامکس کے تمام فارمولے فیل ہو چکے ہیں پہلے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ جب زر مبادلہ کے ذخائر زیادہ ہوتے ہیں تو اپنی کرنسی کی قیمت میں استحکام پیدا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں الٹ ہو چکا ہے حکومت دعوی کرتی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور قوم کی سمجھ سے یہ سب بالاتر ہے۔شائد ایسا کوئی کلیہ ہمارے وزیر خزانہ یا گورنر سٹیٹ بنک کے پاس ہو تو انھیں چاہئے کہ یہ اکنامکس بھی قوم کو سمجھا دیں اور ہو سکے تو طالبعلموں کے کورس میں بھی ٹھیک کر دیں تاکہ وہ جو غلط پڑھائی کر رہے ہیں اس میں اصطلاح ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں چند مافیاز کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور انھیں کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔اگر ہم پنجاب میں دیکھیں تو دو سال قبل اکرم چوہدری وزیر اعلیٰ کے مشیر تھے وہ روزانہ کسی نہ کسی مارکیٹ میں چھاپہ مارتے اور جعلی مہنگائی کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑتے مجسٹریٹ موقع پر سزا دیتا ایک وقت آیا کہ لوگ ڈرنے لگ گئے اگر اسطرح کا اقدام جاری رہتا تو آج شائد پنجاب میں جعلی مہنگائی کی روک تھام ہو چکی ہوتی۔لیکن جب انہوں نے بڑے مافیاز پر ہاتھ ڈالا اور بڑے بڑے سٹورز میں قیمتیں ٹھیک کرانے کی کوشش کی تو اس مافیا نے انہیں گھر بھجوانے پر زور دینا شروع کر دیا بالآخر اکرم چوہدری نے تنگ آ کر خود ہی استعفیٰ دے دیا اور حکومت سے کنارہ کشی اختیار کر لی،۔ اب بھی اگر وزیر اعظم یا وزیر اعلی یہ عزم کر لیتے ہیں کہ مافیاز کو مہنگائی کرنے سے روکنا ہا تو اسے اکرم چودھری جیسے کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان افراط زر کی لپیٹ میں آچکا ہے،اس وقت افراط زر کی اوسط 10.9 فیصد ہو گئی ہے جو کہ تجویز کردہ 2-3 فیصد کے مقابلے میں ہے- اور اب خوراک میں بھی پاکستان کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے جو افراط زر کو ہوا دیتا ہے۔ ایک ملک میں جو درآمدات پر انحصار کرتا ہے، خام مال کی قیمت بار بار اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہے۔ خوراک درآمد کرنے کا خیال پاکستان کے معاملے میں عجیب لگتا ہے جو بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ تاہم، کئی سالوں سے زراعت کے شعبے پر توجہ کی شدید کمی نے ملک کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں گندم بھی درآمد کی جا رہی ہے۔اب ہر کوئی یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ریلیف مانگ رہے ہیں رحم کی اپیل کر رہے ہیں اور اگر اب یہ رحم نہ کیا گیا تو حکمرانوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہو گا۔ماضی میں جب افتخار چوہدری والا مسئلہ ہوا تھا اور عوام جوق در جوق جلوسوں میں شامل ہوئے اسکی وجہ افتخار چوہدری نہیں تھے اس کی وجہ عوام کی وہ تنگی تھی جو اس وقت وہ بھگت رہے تھے۔عوام نے اس وقت کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک راستہ دیکھا اور پھر عوام نے بالآخر اس حکومت سے نجات حاصل کر لی۔عمران خان کی حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ مہنگائی سے تنگ آ کر ایک اور افتخار چودھری کی راہ نہ دیکھنے لگ جائیں۔