ملک کے ممتاز دانشور،شاعر وکالم نگار اجمل نیازی کی رحلت پر لکھے جانے والے اپنے گزشتہ کالم کے اختتام پر میں یہ عرض کررہا تھا وہ صرف اپنے رشتہ داروں، اپنے خونی رشتوں کے لیے ہی اتنے کیئرنگ نہیں تھے، اپنے دوستوں شاگردوں اورہمسایوں کے لیے بھی بہت کیئرنگ تھے، میرا اُن کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا، مگر وہ خونی رشتوں سے بڑھ کر اس لیے مجھے عزیز تھے اُنہوں نے بھی خونی رشتے سے بڑھ کرمجھ سے محبت کی، اُن کے ساتھ باقاعدہ تعلق کا آغاز نوے کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوا، وہ وہاں اُردو ادب کے اُستاد تھے، گورنمنٹ کالج لاہور میں علمی و ادبی سرگرمیوں میں انہوں نے میری بڑی سرپرستی، فرمائی، ہم نے اُن سے بہت کچھ سیکھا، خصوصاً اپنی عزت آبرو کو ہرحال میں مقدم رکھنا اُن ہی سے سیکھا، گورنمنٹ کالج لاہور سے میں نے ایک ادبی وثقافتی ادارے ہم سخن ساتھی کا آغاز کیا جس نے کچھ ہی عرصے میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیئے، اجمل نیازی کا اس میں بڑا کردار تھا، ان ہی کی سرپرستی اور مفید مشوروں کے نتیجے میں ہم سخن ساتھی اس عزت مندانہ مقام پرپہنچا ملک کے ممتاز ترین لکھاری سید ضمیر جعفری نے اس ادارے کے بارے میں لکھا ”یوں محسوس ہوتا ہے اِس ملک میں صرف تین قوتین ہی رہ گئی ہیں، ایک نواز شریف کی مسلم لیگ، دوسرے پیپلزپارٹی اور تیسری قوت توفیق بٹ کا ”ادارہ ہم سخن ساتھی“ اجمل نیازی کے علاوہ جناب احمد ندیم قاسمی، جناب اشفاق احمد، بانو آپا، جناب عطا الحق قاسمی جناب امجد اسلام امجد، پروفیسر پری شان خٹک، ڈاکٹر حسن رضوی، چودھری محمد اقبال اور دلدار پرویز بھٹی کی سرپرستی بھی ہم سخن ساتھی کو حاصل تھی، بشریٰ رحمان اس کی بانی تھیں، ادارہ ہم سخن ساتھی اُن ہی کا تجویز کردہ نام تھا، …… تین برس قبل میری بیٹی کی جب شادی ہوئی وہ اُن دنوں بڑے بیمارتھے، جناح ہسپتال لاہور میں داخل تھے، اُن کی حالت اِس قدر خراب تھی وہ ہسپتال میں اپنے کمرے میں اپنے بیڈ سے اُٹھ کر واش روم تک مشکل سے جاپاتے تھے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اپنی بیٹی کی بارات پر میں سٹیج پر گورنر پنجاب چودھری سرور اور دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود کے ساتھ کھڑا تھا، دونوں نے بیک وقت مجھ سے کہا” وہ دیکھو سامنے وہیل چیئر پر اجمل نیازی آرہے ہیں“…… اُنہیں اس حالت میں دیکھ کر میرے آنسو چھلک پڑے۔ میں سٹیج سے اُترا اور بھاگ کر اُن کے پاس پہنچا۔ اُن کی وہیل چیئرخود پکڑلی، میری بیٹی اور داماد نے سٹیج سے اُتر کر اُن سے پیار لیا، اُن کا شکریہ ادا کیا، اُنہوں نے دعائیں دیں اور رخصت ہوگئے، اپنے ساتھ اُن کی محبتوں کا شمار میں نہیں کرسکتا۔ پر یہ میرے ساتھ اُن کی ایسی محبت تھی یہ قرض زندگی بھر میں نہیں چکا سکتا،اُن کی اِس محبت کو میرا پورا خاندان یاد کرتا ہے، اُن کی رحلت پر میرا پورا خاندان سوگوار ہے، …… جیسا کہ میں نے عرض کیا اُن کے ساتھ میرا رشتہ ایک سٹوڈنٹ کا تھا، پھر یہ رشتہ اُن کے ساتھ باقاعدہ عزیزداری میں اس طرح بدل گیا اُن کے ایک کزن وحید نیازی جو عمران خان کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی تھے کا رشتہ میری بہن کے لیے آیا، ایک مشترکہ دوست نے ہمیں اس کے لیے کہا، کچھ اور لوگ بھی مسلسل اصرار کررہے تھے، میری والدہ مگر مان نہیں رہی تھیں، وہ کسی صورت میں اپنی کشمیری فیملی سے باہر رشتہ طے نہیں کرنا چاہتی تھیں، سو ہم نے اُن سے معذرت کرلی، مگر جب اس معاملے میں اجمل نیازی آئے، اُنہوں نے گھر آکر بڑی عاجزی وانکساری سے میرے والدین سے کہا تو میری والدہ انکار نہ کرسکیں، اُنہوں نے فرمایا ”اجمل نیازی جیسے بڑے انسان کے حکم کو ہم بھلا کیسے ٹال سکتے ہیں؟“……یہ رشتہ ہوا اور ہماری بہن اپنے گھر میں اب راج کررہی ہے اور ہمارا ایمان اِس بات پر مزید مضبوط ہوگیا ہے جوڑے واقعی آسمان پر بنتے ہیں، ذات برادری کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے…… اجمل نیازی کی رحلت پر یوں محسوس ہورہا ہے ہمارے گھر کا کوئی فرد رخصت ہوگیا ہو، وہ اپنی بیماری کے باعث بہت عرصے سے دنیاوی معاملات سے لاتعلق تھے، مگر اُن کے ہونے کی جو ایک رونق تھی اُس سے ہم اب محروم ہوگئے ہیں، وہ میرے والدین خصوصاً میری والدہ سے بہت محبت کرتے تھے، وہ جب میرے گھر آتے میری والدہ کے قدموں کو چُھوتے جس طرح وہ اپنی والدہ کے قدم بوسی کرتے تھے، اُن کی والدہ بہت خوبصورت بہت برکت والا چہرہ رکھنے والی خاتون تھیں، بڑھاپے نے اُن کی گریس میں مزید اضافہ کردیا تھا، اجمل نیازی نے اُن کی بہت خدمت کی، یہ اعزاز بھی اُنہیں ہی نصیب ہوا اجمل نیازی کے دوسرے بہن بھائی بھی تھے مگر اُن کی والدہ آخری دم تک اُن کے پاس رہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا اجمل نیازی اُن کے پاس رہے، اِس پر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، میرے والد محترم کے 2016میں انتقال پر اظہار تعزیت کے لیے چودھری شجاعت حسین صاحب ہمارے گھر تشریف لائے، مجھ سے پوچھنے لگے ”والد محترم آپ کے پاس رہتے تھے؟“……میں نے عرض کیا ”جی نہیں، میں اُن کے پاس رہتا تھا“ …… ممتاز شاعر ودانشور سید ضمیر جعفری کا ایک خط میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ اُس میں اُنہوں نے لکھا ”میں آج کل کراچی میں اپنے بیٹے کے پاس ہوتا ہوں وہ بھی کبھی میرے پاس ہوتا تھا“ …… وہ اولاد تو یقیناً بڑی خوش قسمت ہوتی ہے اپنے والدین کی خدمت کا موقع جسے ملے، پر بے حسی اور بے بسی کے اس دور میں وہ والدین زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں بڑھاپے میں اپنی اولاد کی توجہ جنہیں میسر ہو۔ اجمل نیازی بھی اس حوالے سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ اُن کے بڑھاپے خصوصاً ان کی بیماری کے ایام میں ان کے دونوں صاحبزادوں نے ان کی جی بھر کر خدمت کی۔ اور جو خدمت ہماری رفعت بھابی نے کرچھوڑی اس کی تفصیل پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، وہ اجمل نیازی کو ہمیشہ ”ڈاکٹر صاحب“ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، اُن کے اور ہمارے سانجھے”داکٹر صاحب“ چلے گئے۔ عیدمیلادالنبی کی نصف شب جب آخری ہچکی ڈاکٹر صاحب نے لی، بچے اُنہیں اُٹھا کر ہسپتال لے جانے لگے، بھابی نے بچوں سے کہا ”کوئی فائدہ نہیں، ڈاکٹر صاحب چلے گئے، اب کبھی واپس نہیں آئیں گے ……”موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن ……زندگی بھرکا خلاصہ اسی آواز میں ہے“ …… بچے اس کے باوجود اُنہیں اُٹھا کر ہسپتال لے گئے۔ سب کوششیں رائیگاں گئیں، جانے والوں کوبھلا کون روک سکتا ہے؟۔ جانے والے پھر نہیں آتے، جانے والوں کی یاد آتی ہے۔(جاری ہے)