ذرا پرانے محلوں کا تصور ذہن میں لائیے۔ چھوٹے بڑے گھر، ساتھ ساتھ جڑے گھر اور ایک دوسرے کے اندر گھُسے گھر۔ وہاں پر رہنے والوں کی عادات بھی عجیب تھیں۔ سب الگ الگ خاندان ہوتے لیکن ایک ہی لگتے۔ سب کو معلوم ہوتا آج فلاں کے گھر نئے کپڑے سلے ہیں، فلاں کے گھر مہمانوں نے آنا ہے اور فلاں کے گھر کون سی ہنڈیا پکی ہے۔ گویا کئی گھروں پر مشتمل وہ ایک محلہ ایک ہی گھر لگتا۔ اس محلے والوں کی یہ بھی ایک خصوصیت ہوتی کہ جب کوئی دلہن بیاہ کر کسی کے گھر آتی تو اس گھر کی دیواروں اور منڈیروں پر خواتین، لڑکیاں اور بچے دن رات چڑھے رہتے۔ وہ نئی دلہن کی ٹوہ لینے کے ساتھ ساتھ اُس پر اپنے تعارف کا رعب بھی جماتے۔ اگر کبھی ایسا ہوتا کہ نئی نویلی دلہن کام کاج اور گھر داری کی ماہر نہ ہوتی تو سسرال والے اپنی عزت کی خاطر اُس کے پھوہڑپن پر پردہ ڈالتے۔ اُس دلہن کی نندیں، بھاوجیں اور بڑی بوڑھیاں اُس کے ذمے گھرداری کے تمام کام درپردہ خود کردیتیں اور محلے والیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی کہ ان کی بہو بہت سگھڑ ہے۔ اپنی عزت بچانے کے لیے سسرال والوں کی یہ کاروائی ایک خام خیالی ہی ہوتی کیونکہ گھر کی دیواروں اور منڈیروں سے ہروقت لٹکی خواتین اور لڑکیاں وغیرہ اُس گھر کے سب رازونیاز سے واقف ہوتیں۔ انہیں ایک ایک پل کی خبر ہوتی کہ نکمی دلہن نے کون سا کام خراب کردیا ہے اور اُسے کس طرح ٹھیک کرکے دلہن کو شرمندگی سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری سیاست کی کچھ عادتیں بھی اُس پرانے محلے کی عادتوں جیسی ہیں۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سی حکومت کس کی خوشی کے باعث آئی ہے اور کس کی ناراضگی کے باعث چلی گئی ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے نام پر حکومت کرنے والی حکومت کتنی باصلاحیت ہے۔ مطلب یہ کہ سب کچھ سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن صرف اس حکومت کو معلوم نہیں ہوتا۔ یعنی جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چوتھا سال لگ گیا۔ اس دوران اُن کی انتخابی مہم میں دعوؤں کے مطابق دودھ کی نہروں، شہد کی آبشاروں اور ہیرے جواہرات کے پہاڑوں کا کیا پوچھنا، اُن سے تو کوئی اہم قانون سازی بھی نہ ہوسکی۔ بیشتر انڈسٹری بند ہونے کے باعث ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ میڈیا کو جاری ہونے والے اشتہارات رشوت اور خوشامد کا نام دے کر بند کر دیے گئے جس کے باعث ہزاروں میڈیا پرسنز اور ورکرز بے روزگار ہوگئے۔ اب میڈیا کو ایک اتھارٹی کے
ذریعے قید بامشقت سنانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھا کر روپے کی قدر گرانے کا مقصد پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینا بتایا گیا تھا لیکن یہ کُشتہ انہیں الٹا پڑگیا۔ تحریک انصاف نے ڈالر سے جو دوستی نبھائی اُس سے پاکستان کے قرضے کئی گنا بڑھ گئے۔ چین و عرب نے کچھ دولت جو ہمارے ہاں پارک کروائی اس سے جو ذرا سی معاشی بہتری ہوئی یا جو تھوڑی بہت دوسری غیرملکی امداد ملی وہ سب روزمرہ اخراجات اور بیڈگورننس کے خرچے میں نکل گئی۔ اِن سب کے باوجود پی ٹی آئی کو اچھی معاشی حکمت عملی والی حکومت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خارجہ پالیسی تو ویسے بھی ہمارے ہاں سول حکومت کا کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے خاص ماہرین خاص جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ اگرحالیہ خارجہ پالیسی میں چین، افغانستان اور عرب وغیرہ کے ساتھ ہونے والی کامیابیوں میں سے راولپنڈی کی کوششوں کو ایک طرف کردیا جائے تو پی ٹی آئی کے پاس فارن آفس کی بلڈنگ کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ ہمارے ہاں چاروں مارشل لاؤں کی ایک جیسی تین عادتیں بہت نمایاں رہیں۔ پہلی یہ کہ جب بھی مارشل لاء آیا انہوں نے شروع شروع میں تجاوزات کے خلاف بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ دوسرا یہ کہ مارشل لاء کے مخالف سیاست دانوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر خوب رگڑا۔ تیسری یہ کہ وہ مارشل لائی حکمران نہ تو کبھی کرپشن ثابت کرسکے اور نہ ہی ناجائز تجاوزات اور کرپشن کے خلاف کوئی مستقل اہم قانون سازی کروا سکے۔ تحریک انصاف ایک سول حکومت ہے لیکن اس کی اداؤں کے باعث اس کے ڈی این اے میں کہیں نہ کہیں مارشل لاء کا کوئی مالیکیول محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس کی حکمرانی کی عادات میں بھی کچھ مارشل لائی عادتیں شامل ہیں۔ اِنہوں نے بھی ناجائز تجاوزات کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا لیکن اس معاملے میں عمل سے زیادہ پراپیگنڈہ کیا۔ دوسرا یہ کہ اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن کے ایسے الزامات لگائے جو شاید شیکسپیئر نے بھی اپنے ڈراموں میں ٹریجڈی پیدا کرنے کے لیے مخالف کرداروں پر نہ لگائے ہوں گے۔ اسی لیے پی ٹی آئی اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن کا الزام حتمی طور پر اب تک ثابت نہ کرسکی۔ تحریک انصاف کی مارشل لاء سے ملنے والی تیسری عادت یہ ہے کہ انہوں نے بھی ناجائز تجاوزات اور کرپشن روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ مارشل لاء کی ایک چوتھی دلربا عادت یہ بھی تھی کہ وہ جب واپس جاتے توسول سیٹ اپ کو اس کے حال پر چھوڑ جاتے۔ سول سیٹ اپ جیتا یا مرتا اِس کی اُنہیں پرواہ نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی کے بارے میں بھی یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اِن کے جانے کے بعد بھی عوام کو بے یارومددگار انہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اوپر دی گئی پرانے محلے کی مثال کا کلائمیکس یہاں پہنچتا کہ سسرال والے نئی دلہن کے پھوہڑپن پر پردہ ڈالتے ڈالتے آخرکار تنگ آجاتے اور کائیاں محلے والیوں کی معنی خیز کھسر پھسر بھی ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی۔ پھروہ نئی نویلی دلہن کا دفاع ختم کرکے اُس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے۔ پی ٹی آئی کو میدان میں اتارنے والے کھلاڑی پی ٹی آئی کے پھوہڑپن کا اب نوٹس لے ہی لیں تو اچھا ہے ورنہ خرانٹ محلے والیاں یعنی پی ایم ایل این، پی پی پی، جے یو آئی ایف، جے یو پی، جماعت اسلامی، پی ایم اے پی، اے این پی، کیو ڈبلیو پی، جے آئی ایچ، این پی بزنجو اور بی این پی مینگل وغیرہ سیف الدین سیف کے یہ شعر جھوم جھوم کر پڑھیں گی:
بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آگئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے
بھرے بازار میں جنس وفا بے آبرو ہوگی
اٹھے گا اعتبار کوئے جاناں ہم نہ کہتے تھے
اسی رستے میں آخر وہ کڑی منزل بھی آئے گی
جہاں دم توڑ دے گی یاد یاراں ہم نہ کہتے تھے