سرکار دو عالم خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، فخر الانبیاء،آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات رہتی دنیا تک ذریعہئ رشد و ہدایت ہے۔ آپؐ نے دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ بعثت محمدی کا زمانہ نوع انسانی کی تاریخ کا دور اس اعتبار سے منفرد ہے کہ عقل انسانی اپنی پختگی کو پہنچ چکی تھی اور بہ حیثیت انسان جو کچھ سوچ سکتا تھا وہ سوچ چکا تھا یعنی نسل انسانی فکری لحاظ سے عقل و فکری طور پر پختہ ہو چکی تھی۔ 600 قبل مسیح سے لے کر 600 سن عیسوی تک کا زمانہ مد نظر ہے۔ یاد رہے کہ آپ کی پیدائش عیسوی کیلن ڈر میں 571ء ہے۔ اس عرصے میں تمام مذاہب آ چکے تھے اور تمام مکاتب فکر وجود میں آ چکے تھے۔ اس اثناء میں مادی علوم نے ضرور ترقی کی اور معلومات کا دائرہ وسیع ہوا مگر فکر اور نظریاتی میدان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے نہ کوئی نیا مذہب وجود میں آیا اور نہ جدید مکتب فکر یا جدید فلسفہ جیسے عنوان سامنے آئے۔
یہی وجہ تھی کہ آپ کی بعثت کے بعد مشرکین مکہ کو جو چیز سمجھنے میں سب سے زیادہ مشکل پیش آئی کہ آپؐ نے مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یعنی جزا و سزا کا تصور نہ ہو تو زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے۔ اس بات پر آپؐ کا مذاق اڑایا گیا طرح طرح کے سوال کیے گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار جو اب یہ دیا کہ تمہیں مرنے کے بعد زندہ ہونا اگر اتنا ہی عجیب لگتا ہے تو تم اپنی پیدائش پر غور نہیں کرتے قرآن میں بلا جھجک انسانی نطفے سے انسان کی پیدائش کے ایک ایک مرحلے کو کس صفائی کے ساتھ بیان کرنے کے بعد سوال کیا کہ بھلا جو خدا آپ کو اس اس طریقے سے پیدا کر سکتا ہے وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو ان کو پھر سے انسان میں تحویل کر دے گا یقینا یہ ہو کر رہے گا۔
آپ دنیا بھر میں انقلاب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب روس تک اور یونانی سلطنتوں سے روم کی بادشاہی تک جتنے انقلاب آئے اس میں صرف اقتدار کا خاتمہ کر کے نئی حکومتیں وجود میں آئیں۔ حضرت محمدﷺ کا لایا ہوا انقلاب واحد انقلاب تھا جس نے انسانیت کو ایک مکمل ضابطہئ حیات سے روشناس کیا اس انقلاب کا مطمع نظر سیاسی اختیار یا اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ایک مکمل نظام جس میں معیشت، معاشرت، انسانوں کے انسانوں کے ساتھ معاملات وراثت، فیملی لائف حتیٰ کہ A to Z سماجی زندگی کے لیے ضابطے تشکیل دیئے گئے تا کہ اللہ کی زمین پر انصاف اور مساوات کا نظام ایک ماڈل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
حوادث زمانہ کے ساتھ دین ابراہیمی میں جو کرپشن اور بدعنوانی رائج تھی اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے پیغمبروں کے بعد اپنے دین میں اپنے ذاتی مفادات کے لیے جو ملاوٹ کر دی تھی اس کا خاتمہ ناگزیر تھا اور اس کام کے لیے آپ ﷺ کا انتخاب کیا گیا جس نے کمزور کو طاقتور کے سامنے برابری کی سطح پر کھڑا کر دیا۔ قریش سرداروں کو اسلان قبول کرنے میں ایک دقت یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم آپ کے اردگرد بیٹھنے والے غریب، مسکین اور خلق کے روندے ہوئے اور ادنیٰ درجے کے لوگوں جنہیں ہم اپنی زبان میں کمی کمین کہتے ہیں ان کے برابر آ کر نہیں بیٹھ سکتے جس کے بعد آقائے دو جہاں کو وحی کے ذریعے انتباہ کر دیا جاتا ہے کہ تمہاری نگاہیں ان کمی کمین کو چھوڑ کر کسی اور پر نہ پڑیں کہ تم ان لوگوں پر جو
آپ کی خوشنودی چاہتے ہیں پر کسی اور کو ترجیح دو۔ کلام اللہ میں متعدد بار اس مفہوم کو پیش کیا گیا ہے۔
اسلام نے ہمیں نظریات اور عبادات اور نماز روزے اور مسجد تک کا نظام ہی نہیں دیا بلکہ انسانیت کو ایک نیا سوشل آرڈر دیا جس میں استحصال جبر اور ظلم و زیادتی کے خاتمے اور انصاف مساوات محمدی کے نظام سے روشناس کرایا جو آگے چل کر جدید جمہوریت کی اساس بنا۔ لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ خطہئ عرب پر ملوکیت کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے اور غلامی کی وہ زنجیریں انسانیت کو دوبارہ پہنا دی گئیں جن کے خاتمے کے لیے آپؐ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔
قرآن پاک کی آخری حصے کی سورتوں میں سورۃ اللھب وہ سورت ہے جس کا نام کافروں کے سردار کے نام پر رکھا گیا یہ آنحضرت کے چچا تھے قریش قبیلے نے خانہ کعبہ میں مختلف امور کی نگرانی کے لیے سردار مقرر کر رکھے تھے اس میں خانہ کعبہ پر جو نذر و نیاز اور تحائف دیئے جاتے تھے وہ ابو لھب کی تحویل میں تھے گویا ہماری زبان میں ابو لھب اس وقت کے توشہ خانے کا سربراہ تھا۔ اس نے جنگ بدر میں ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں سے لڑنے کی بجائے اپنی جگہ پر اپنا کوئی پراکسی بھیج دیا جس پر کفار میں اس کا نام بزدل پڑ گیا اس نے دوسری کرپشن یہ کی کہ کسی نے خانہ کعبہ کے لیے سونے کا بنا ہوا ایک ہرن جسے عربی میں غزال کہتے تھے وہ خانہ کعبہ کو تحفتاً پیش کیا جو ابو لھب کو دیا گیا اس نے وہ قیمتی ترین تحفہ توشہ خانے میں جمع کرانے کی بجائے اپنے گھر لے گیا جس کے بعد قبیلے میں اس کا نام غزال چور پڑ گیا اس سے کم از کم اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کفار مکہ خواہ وہ اسلام کے منکر ہی تھے مگر چوری اور بدعنوانی کو وہ بھی برا سمجھتے تھے اور اسے بدعنوانی یا کرپشن سمجھا جاتا تھا۔ سورۃ اللھب میں ابو لھب کے انجام کی جو خبر دی گئی ہے اس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے انجام سے دو چار ہوا۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر پھر بھی خیانت سے نہیں ڈرتے۔
ہم حضرت محمدﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ہمارے اعمال سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔ دکھاؤاور ریا کاری والی محبت کچھ فائدہ نہیں دے گی جب تک اس میں ہمارا اخلاص اور نیک نیتی شامل نہ ہو اسی لیے علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے
یہ شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا