اندھیروں کے باوجود امید کی کرن ہر سودکھائی دیتی ہے، نفسا نفسی کے عالم میں جہاں ہر شخص دوسرے کے دکھ اور درد سے نا آشنا ہے، ایسے بھی لوگ نظر آتے ہیں جو ایک تحریک کی مانند لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے میں دیوانوں کی طرح مصروف عمل ہیں۔ جہاں لوگ دوسروں کو کھاتے دیکھ نہیں سکتے، وہاں ایسے بھی ہیرے موجود ہیں جو لوگوں کے لئے کھانے بلکہ بہترین کھانے کا بندوبست کر کے ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی چند لوگوں میں میاں چنوں سے لندن ہجرت کر جانے والے احسان شاہد چوہدری ہیں۔ دوسرے سیلف میڈ لوگوں کی طرح انہوں نے بھی اپنی زندگی میں بڑی پریشانیاں دیکھیں، مشکلات کے طوفانوں کا مقابلہ کیا اور ”چھوٹے“ سے ”بڑے“ تک کے سفر میں کامیاب ٹھہرے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کامیابی کے اس سفر میں میں انہوں نے اپنے جیسے لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑا اور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا، ان لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لانے کی کوشش کرتے رہے۔
نہ صرف پاکستان بلکہ پورے یو۔کے میں احسان شاہدچوہدری کا نام خدمت انسانی کی بنیاد پرمعروف ہے۔ انہوں نے لندن میں قیام پذیر پاکستانیوں کا احساس تنہائی و کمتری دور کر نے کے لئے جہاں ذاتی حیثیت میں بہت کچھ کیا وہاں اپنی تنظیم پاکستان ویلفئیر ایسو سی ایشن کے عہدیدار کے طور پر بھی کام کیا اور بالخصوص پاکستان کے قومی تہواروں پر محفلیں سجا کر نہ صرف لندن میں قیام پذیر پاکستانیوں بلکہ دوسری کمیونٹی کے لوگوں میں بھی پاکستان کی محبت و اہمیت کو اجاگر کیا۔دیار غیر میں پاکستانیوں کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے وہاں وفات پاجانے والے پاکستانی مسلمانوں کو اسلامی طریقے سے تجہیز و تکفین کا بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ لوگوں کی اسی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ان کی ایسو سی ایشن دیار غیر میں وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی اسلامی طریقے سے تجہیز و تکفین میں معاونت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان میں ان بچیوں کی شادی کے اخراجات برداشت کر نے کا بھی سلسلہ شروع کیا ہے جن کے والدین اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلا کر نے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ہر سال سیکڑوں غریب و یتیم بچیوں کی شادی بڑے احسن انداز میں سر انجام پاتی ہے اور اس کے لئے کسی درخواست کی ضرورت نہیں بلکہ یہ اپنے طور پر ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو حقیقی معنوں میں سفید پوش ہوتے ہیں اور اپنے حالات کو اپنے رب کے علاوہ کسی پر ظاہر بھی نہیں ہونے دیتے۔
معروف کالم نگار جناب عطا ء الحق قاسمی کے بقول:”احسان شاہد کا کمال یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کو دور لے جانے کی بجائے، انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے اسے خاصہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ وہ آپ کو کہے گا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں تعریفی کلمات کہہ رہا تھا اور کچھ اسی طرح کا جھوٹ وہ فلاں شخص سے بھی بولے گااور یوں ان دونوں کے درمیان اگر کوئی رنجش تھی تو دونوں میں اس کا جوود ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔“
قارئین کرام! جب سے پوری دنیا میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں شروع ہوئی ہیں، پاکستان کی طرح دیگر کئی ممالک میں کئی لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تو اللہ کی خاص رحمت رہی کے حالات اس نہج پر نہ پہنچے جس طرح دوسرے مما لک میں تھے۔ یو۔کے میں کرونا وائرس کے عذاب کی وجہ سے کئی لوگ بے روزگار ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔ ان لوگوں کے دکھ، درد اور کرب کو سمجھنے والا ایک سیلف میڈ انسان ہی ہو سکتا تھا۔ اس موقع پر بھی احسان شاہد آگے بڑھا اور اپنے طور پراپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے گلیوں، چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر رہنے والوں کئے ”دی اوپن کچن“ کے نام سے ایک ایسے پروجیکٹ کا آغاز کیا جسے نہ صرف لو کل کمیونٹی نے سراہا بلکہ عالمی نشریاتی اداروں سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کچن میں نہ صرف کھانے پینے کی اشیا، فروٹس بلکہ ضرورت زندگی کی تمام اشیا ء ان لوگوں کو فراہم کی گئیں۔ ڈپریشن اور فرسٹریشن کی وجہ سے جنہوں نے اپنے آپ کوچھوڑر دیا، انہیں دوبارہ زندگی کی جانب لے کر آنا، انہیں غسل دینا، ان کے کپڑے تبدیل کروانا، ان کی شیو کرنا یہاں تک کہ جیسے ایک چھوٹے بچے کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے، احسان شاہد نے زندگی سے موت کی جانب جانے والے ایسے ہی لوگوں کی مدد کی اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ ان دو سالوں میں وہ لوگ جو مایوسی کا شکار ہو کر زندگی سے کٹ گئے تھے، وہ احسان شاہد اور ان کی ٹیم کی وجہ سے دوبارہ زندگی کی جانب پلٹے اور اب ان کے ساتھی بن کر دوسروں کو زندگی کے رستے پر لے آنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ ”دی اوپن کچن“مفاد عامہ کا ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو مردہ دلوں میں زندگی کی امید بخشتا ہے، جو بھوکوں کو کھانا کھلانے، بے آسراؤں کو آسرا دینے اور بے گھروں کو گھروں جیسا ماحول دے رہا ہے اور لاکھوں لوگوں کو اپنی کاوشوں کی وجہ سے زندگی کے رستے پر لایا ہے۔ احسان شاہد اور ان کی پوری ٹیم اس عظیم کام کر نے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔