اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس غیر آئینی قرار دیدیا۔ صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کیخلاف معاملہ جوڈیشل کونسل میں نہیں چل سکتا۔ صدر مملکت نے آئین و قانون سے تجاوز کیا اور صدر آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ پبلک سرونٹ نہیں ہیں جبکہ کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ 224 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن کی جائیدادوں کی بنیاد پر بنا اور کوئی ایسی شق نہیں کہ ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کوبدنیتی کے شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ فیصلوں کیخلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دیا جاتا ہے جبکہ درخواست گزار کو دیا جانے والا 17 اگست 2019 کا نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ فیصلے کے سات روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب بھی دیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں اور اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو پھر بھی متعلقہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں اور انکم ٹیکس کمشنر اپنی کاروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے۔