نومبر کے مہینے میں دو عبقری شخصیات کی ولادت ہے۔ ایک علامہ اقبال جن کا یوم پیدائش ۹ نومبر ہے اور دوسرے مولانا ابو الکلام آزاد جن کا یوم پیدائش ۱۱ نومبر ہے۔ مولانا ابولکلام آزادؔ کو برصغیر کی سیاسی، ادبی اور علمی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت اور مقام حاصل ہے۔ان کی براہ راست تصانیف میں تذکرہ، غبارِ خاطر، انڈیا ونس فریڈم، قرآن حکیم کی تفسیر ترجمان القرآن، الہلال اور البلاغ کے اداریئے شامل ہیں۔ الہلال اور البلاغ کے اداریئے کتابچوں کی شکل میں بھی موجود ہیں۔ ملت کے لیے ان کی خدمات، تدبر، بصیرت، ان کا منفرد اندازِ فکر علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی شستہ و رفتہ اور کوثر وتسنیم میں دُھلی تحریر و گفتگو اور پر اثر لہجہ انھیں اسمَ بامسمیٰ ثابت کرتا ہے۔
مولانا آزادؔ کی فکر اور انشا پردازی کا اپنا مقام ہے۔ لیکن ان کی تحریروں میں اسلوب اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ معنی مغلوب ہوجاتے ہیں۔ تحریر میں دلیل کم او ر تحکم زیادہ ہے اور بات کی اہمیت دلیل کے بجائے تحریر کی طاقت پر ہوتی ہے۔ بعض شعراء کرام ان کی نثر کی چاشنی میں اپنی نظم کو بے مزہ پاتے تھے جب کہ ان کی علمی فضیلت اور فکری تنوع کے سبب انھیں ”ہندوستان کا ابن تمییہ“ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک زمانہ ان کے اسلوب اور علمی قابلیت کا گرویدہ ہے لیکن ان کے متحدہ قومیت کے فلسفے اور سیاسی نظریات سے بھی ایک زمانہ اتفاق نہیں کرتا۔
ان کی تصنیف ”تذکرہ“ ایک عہد آفریں کتاب ہے۔ انشاء پردازی کا شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ علم کی خوش ذائقہ ضیافت بھی ہے۔ لیکن تاریخی واقعات کے حوالے سے ان کی تحریروں میں تفاوتِ فکر کو بھی اہل علم نے محسوس کیا ہے۔ ان کے تفاوت فکر کی نشاندہی اسلامی ہند اور پاکستان کی مذہبی اور علمی تاریخ کی مستند کتب آب ِکوثر، رودِ کوثر اور موجِ کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرام صاحب نے بھی کی ہے۔ تذکرہ کے تقریباََ پچیس سال بعد کی تصنیف غبارِ خاطر میں بدایونی کے متعلق مختلف بیان ملتا ہے۔ تذکرہ میں ہی وہ اکبر کی مذہبی پالیسی متعین کرنے کا ذمہ دار مخدوم الملک مُلّا عبداللہ سلطان پوری اور صدر الصدور شیخ عبدالنبی گنگوہی کو گردانتے ہیں اور اکبر کے الحاد کے قلع قمع کا سہرا تنہا حضرت مجدد الف ثانی کے سر باندھتے ہیں۔ مولانا نے اپنی غیر معمولی انشاء پردازی سے تاریخ کے ایسے واقعات کوبھی اردو ادب میں امر کردیا ہے جن کی صداقت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اور بقول مہدی گورکھپوری کہ ”انشاء پرداز کا ایک فقرہ ہزاروں علمی و تاریخی اوراق پر بھاری ہوتا ہے “۔
معلوم و دستیاب علمی و ادبی تاریخ میں مکتوب نگاری ایک اہم صنف سمجھی جاتی ہے۔ محققین مکاتیب کو تحقیق کے باب میں بنیادی ذرائع میں شمار کرتے ہیں۔ غبارِ خاطر ان کی اس تین سالہ اسیری کے دوران کا شاہکار ہے جو انہوں نے ۹ اگست ۱۹۴۲ء سے ۱۵ جون ۱۹۴۵ء کے دوران کاٹی۔ غبار ِخاطر کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ یہ خطوط کا مجموعہ ہے۔ لیکن دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان خطوط میں ان کا روئے سخن نواب صدر یار جنگ بہادر مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کی
جانب ہے جو علم کی مختلف اصناف میں یکساں دلچسپی رکھتے تھے۔ بنیادی طور پر یہ خطوط نجی نوعیت کے تھے اور اشاعت کے خیال سے نہیں لکھے گئے تھے۔ لیکن بعد میں ان خطوط کو مولانا کے معتمد خاص جناب محمد اجمل خان صاحب کے اصرار پر مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا۔
تذکر ہ اور غبارِخاطر ان کے اسلوبِ نگارش کا نقطہ عروج ہے۔ غبارِ خاطر میں مولانا کے ابتدائی حالات، خاندان، تعلیم، عادات، کردار اور نفسیات کے متعلق معلومات تفصیل سے درج ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کی ہستی، انانیت، فلسفہ، علمِ موسیقی اور تاریخ پر قابل قدر مضامین خطوط کی شکل میں ہیں۔ اگرچہ غبارِ خاطر میں چند مضامین ایسے بھی ہیں جنھیں بادی النظر میں عمومی کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً حکایت ِ زاغ و بلبل یاچڑیا چڑے کی کہانی، لیکن مولانا کے اسلوب نے جو بیان اور سماں باندھا ہے وہ ہمارے ادبی ورثے کا اثاثہ ہیں۔
مولانا ابولکلام آزادؔکا حافظہ بے مثال تھا۔ تین ہزار سے زائد عربی،فارسی اور اردو کے اشعار انھیں ازبر تھے اور ان کے برمحل استعمال پر بھی قادر تھے۔ غبار خاطر میں بھی تقریباََ سات سو کے قریب اشعار درج ہیں۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ جو کتاب پڑھتے تو یہ تک یاد رہتا کہ فلاں جملہ یا عبارت کون سے صفحہ نمبر پر ہے اور صفحہ دائیں جانب تھا یا بائیں جانب۔ انڈیا ونس فریڈم میں درج کانگریس کے اجلاسوں کی پوری پوری رودادحافظے میں محفوظ تھیں۔ لیکن مولانا کے حافظے نے انھیں ایک جگہ دھوکہ بھی دیا جس کا افسوس مولانا کو بھی رہا۔ دسمبر ۱۹۱۸ء میں جب مولانا رانچی میں نظر بند تھے تو ایک شخص قندھار سے براستہ کوئٹہ ہوتا ہوا آگرہ اور رانچی پہنچا۔ یہ مولانا کے رسائل الہلال اور البلاغ کا مستقل قاری تھا اور مولانا سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھنا چاہتا تھا۔ یہ شخص چند روز تک ان کے پاس ٹھہرا اور پھر اچانک ہی واپس چلا گیا۔ جاتے وقت وہ اس لیے مولانا سے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا کہ مولانا واپسی کے مصارف کے لیے اس کی مدد کریں گے۔ مولانا اس شخص کا نام یاد نہیں رکھ سکے لیکن اپنی تفسیر ترجمان القرآن کا انتساب اسی نامعلوم شخص کے نام کیا ہے۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہم نے اپنے عہد کی ان غیر معمولی شخصیات کو بھی سیاسی تعصب کی نظر کرتے ہوئے ان کی علمی اور ادبی خدمات سے صرفِ نظر کیا ہے۔ مولانا کوبھی ہم نے کانگریس کے اسٹیج پر بٹھائے رکھا جب کہ ان کا علمی، ادبی مقام اور بصیرت بلاشبہ اس سے ہزار درجے بلند ہے۔