دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بننے والی فضائی آلودگی سموگ کہلاتی ہے جو نہ صرف حدنگا ہ کو ختم کر کے کاروبار زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ مختلف بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق دھند کے ساتھ دھواں،گردو غبار، صنعتی گیسیں، گاڑیوں کا دھواں، زرعی سپرے، گھریلو ایندھن، کوئلہ لکڑی وغیرہ، تھرمل پاور اسٹیشنز، کوڑے کی آگ، فصلوں کی باقیات کو جلانا، کیمیکل کے بخارات، معدنی گردوغبار اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونیوالی فضائی آلودگی کے زرات دھند سے مل کر سردیوں کے موسم میں سموگ کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
سموگ کا لفظ لاس اینجلس ٹائمز میں پہلی دفعہ استعمال ہوا جب صنعتی انقلاب کے بعد امریکہ اور یورپ میں ہر طرف دھوئیں کے بادل منڈلانے لگے اور فضائی آلودگی نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مقامی لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ سموگ کے حوالے سے دنیا کی تاریخ کے بدترین حالات لندن میں پیش آئے جب 1952ء میں پورے شہر کو چار روز تک سموگ نے اپنی لپیٹ میں لیئے رکھا جس کے دوران مختلف حادثات اور دم گھٹنے کی وجہ سے 4ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔اور اس سموگ کے اثرات سے آنیوالے چند ہفتوں میں مزید 8ہزار افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی۔ جانی نقصان کے علاوہ بہت سارا مالی نقصان بھی ہوا۔ جنگلات اور فصلوں کی افزائش سخت متاثر ہوئی۔جس پر پوری برطانوی حکومت ہل کر رہ گئی۔ سموگ کے حوالے سے جامع تحقیق اور پارلیمنٹ میں طویل بحث و مباحشہ کے نتیجے میں برطانیہ میں 1956ء میں ایک کلین ایئر ایکٹ لایا گیا جس کے تحت لند ن اور دیگر بڑے شہروں میں کوئلے اور لکڑی کے جلانے پر مکمل پابندی لگائی گئی اور دھواں پیدا کرنے والی فیکٹریوں کو شہر سے باہر منتقل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج برطانیہ میں سموگ کا خطرہ بہت کم رہ گیا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا جیسے ترقی پذیر ممالک میں سموگ کے پیدا ہونے کی وجوہات اور معاشرے پر انکے اثرات کے حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔ انڈسٹریل سیکٹر کو بے جا چھوٹ اور عوام الناس میں سموگ کی وجوہات اور بچاؤ کے بارے میں احتیاطی تدابیر سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
سموگ کے دنوں میں کاروباری زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا ہے مگر سیاسی مصلحتوں کی بناء پر سابقہ حکومتیں سموگ کے خاتمے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کر سکی۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے گئے ہیں جو 24 گھنٹے مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ فضا میں موجود تمام آلودگی کے عناصر کو ایک فارمولے کے تحت جانا جاتا ہے اور اس کے بعد ایئر کوالٹی انڈیکس نکلتا ہے جس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آلودگی کا تناسب کیا ہے۔محکمہ ماحولیات کی گائیڈ لائنز کے مطابق اگر ایئر کوالٹی انڈیکس 200 تک ہو تو اس کو نارمل گردانا جاتا ہے۔ دو سو سے تین سو تک بھی صورت حال قابل قبول ہے، اس میں ہلکی پھلکی جلن آنکھوں میں محسوس ہو سکتی ہے جبکہ سانس اور دل کے مریض، بچے اور بوڑھے اس مقدار سے متاثر ہو سکتے ہیں۔تاہم تین سے چار سو انڈیکس ہونے پر زیادہ دیر آلودہ فضا میں رہنا مسائل پیدا کر سکتا ہے جبکہ چار سے پانچ سو تک انڈیکس آلودگی کی خطرناک حد کو ظاہر کرتا ہے۔محکمہ ماحولیات کی موبائل ایپلیکیش پر براہ راست ان مانیٹرنگ سسٹمز کے اعداد و شمار دیکھے جا سکتے ہیں۔ لاہور کے سرحدی علاقے میں آلودگی کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جالندھر کے علاقے میں بڑے پیمانے پر چاول کی فصل کی باقیات کو آگ لگائی جا رہی ہے اور ہم سیٹلائٹ تصاویر سے یہ دیکھ پا رہے ہیں کیونکہ انڈیا میں فصل کی باقیات جلانے پر پابندی نہیں ہے اس لیے لاہور کے سرحدی علاقے کی فضا اور بھارتی پنجاب کی فضا میں آلودگی کا تناسب زیادہ ہے۔لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ڈاکٹر پرویز حسن کی چیئر مین شپ میں آٹھ ممبرز پر مشتمل سموگ کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔جس نے مکمل بحث و مباحثہ اور جدید تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی 17تجاویز حکومت کو پیش کیں جن پر عملدرآمد کر کے سموگ کے خطرے کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان تجاویز کی روشنی میں حکومت پنجاب نے سب سے پہلے عملی اقدامات کرتے ہوئے پنجاب کلین ایئر کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا اور سموگ سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے کیلئے ضلعی اور تحصیل سطح پر خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو سموگ کنٹرول کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کروانے کی پابند ہیں۔ بھٹہ خشت سے پیدا ہونے والا دھواں سموگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس پر حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ گنجان شہریوں کے گردونواح میں موجود تمام بھٹہ خشت بند رہیں گے تاہم وہ تمام بھٹہ خشت جو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیے جا چکے ہیں انھیں بند نہیں کیا جائے گا۔ اور صوبہ بھر میں نئے بھٹہ خشت لگانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بھٹہ مالکان کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ اپنے بھٹوں پر پرانی ٹیکنالوجی کوزیگ زیگ (ZIG ZAG)ٹیکنالوجی میں تبدیل کریں۔ جس سے نہ صرف سموگ کا خطرہ ٹل جائیگا بلکہ بھٹہ مالکان کو اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مالی فوائد بھی حاصل ہونگے۔کیونکہ ایک عام سسٹم میں ایک بھٹہ دس لاکھ اینٹیں پچا س سے ساٹھ دنوں میں تیار کرتا ہے جبکہ اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت یہ اینٹیں صرف دس دنوں میں تیار ہو جائینگی۔ اس جدید سسٹم کی بدولت پلوشن میں بھی ستر فیصد کمی واقع ہو گی۔ سموگ کے خاتمے کیلئے وزیر اعلی پنجاب محمد عثمان بزدار کی ہدایات کی روشنی میں صوبہ بھر میں دفعہ 144کا نفاذ کر کے کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات جلانے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔اسی طرح سموگ کی روک تھام،انسانی صحت کے تحفظ اور ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے،زگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر بھٹوں،دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔اسی طرح پنجاب نیشنل کلائمیٹیز(ریلیف اینڈ پریوینشن) ایکٹ 1958ء کے تحت سموگ کو آفت قرار دے دیا گیا ہے۔حکومت کی طرف سے جاری ہدایات کی خلاف ورزی پر ایف آئی آرز کا اندراج،بھاری جرمانے اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح سموگ اور دیگر ماحولیاتی تغیرات سے بروقت آگاہی کیلئے ایک مربوط سسٹم وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تا کہ سموگ کی بروقت روک تھام کیلئے عملی اقدامات کئے جا سکیں۔ حکومت کی جانب سے عوام الناس کو سموگ سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں بھرپور آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔
سموگ اور اس کی روک تھام
09:25 AM, 23 Nov, 2021