گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت 33 اہم بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی جو ایوان بالا یعنی سینٹ سے منظور نہیں ہو سکے تھے یا انہیں وہاں پر زیر التوا پڑے نوے سے زیادہ دن گزر چکے تھے۔ اسے حکومتی وزراء کی طرف سے ایک بڑی کامیابی قرر دیا جا رہا ہے، جو کہ واقعی ہے۔ متحدہ اپوزیشن تمام تر کوششوں کے باوجود حکومتی برتری کو شکست نہیں دے سکی۔ ظاہر ہے کہ جمہوری پارلیمانی نظام میں اعداد و شمار ہی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے قانونی یا آئینی طور پر یہ قوانین اب ہمارے نظام کا حصہ بن گئے ہیں اور حکومت چاہے گی کہ تمام ادارے اب ان قوانین کے مطابق کام کریں۔ حکومت کی یہ خواہش بھی بے جا نہیں کہی جا سکتی۔
مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں منظور کئے گئے تینتیس قوانین میں سے سب سے زیادہ اہم قانون یہ ہے کہ اب انتخابات میں الیکٹرانک مشینیں (EVMs)استعمال کی جائیں گی اور ووٹ ڈالنے کا پرانا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ بلا شبہ اس قانون کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اوراگر تمام سیاسی جماعتوں اور تعلق داروں (Stake holders) کا اتفاق نہ ہو پایا تو انتخابی عمل بھی متنازعہ رہے گا اور اگر یہ تنازعہ بحران کی شکل اختیار کر گیا تو نہ صرف ملک شدید بے یقینی کا شکار ہو جائے گا بلکہ جمہوریت کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر دو آراء پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے تو حکومت کی ہے جسے سو فیصد یقین ہے کہ ان مشینوں کے استعمال سے ہر قسم کی انتخابی دھاندلی کا راستہ رک جائے گا۔ نہ ووٹ ڈالنے میں کوئی گڑ بڑ ہو گی، نہ کوئی جعلی ووٹ ڈالا جا سکے گا، نہ کوئی ووٹ ضائع ہوگا، نہ ایک ایک پرچی گننے کے طویل عمل سے گزرنا پڑے گا، اور نہ ہی گنتی کے عمل میں کوئی دھاندلی ہو سکے گی۔ نتائج بھی فوری طور پر مل جائیں گے۔ مشینوں کی حمایت میں امریکہ اور پڑوسی ملک بھارت کی مثالیں دی جاتی ہیں، جہاں ووٹنگ مشینیں نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دنیا کے آٹھ ممالک جزوی یا کلی طور پر ان مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے بہت سے مسائل حل کر دئیے ہیں۔ لہٰذا انسان کی غلط کاریوں اور حربوں کو روکنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مشین پر اعتماد کیا جائے جسے کسی کی حمایت یا مخالفت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
مشینی ووٹنگ کے مخالفین بھی ٹھوس دلائل رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے دو سو کے لگ بھگ ممالک میں سے صرف آٹھ نو ممالک کا یہ مشینیں استعمال کرنا ہی اسکی دلیل ہے کہ بڑے خطے کے لئے یہ قابل اعتماد نہیں۔ مشینی اور ٹیکنیکل ترقی اور اہلیت میں ہم سے کہیں برتر ملک جرمنی، ان مشینوں کے استعمال کا تجربہ کر چکا ہے۔ اس کے نتا ئج سے نا مطمئن ہونے اور انہیں ناقص قرار دینے کے بعد اب وہ مشینوں کو ترک کر کے واپس روائتی نظا م پر چلا گیا ہے۔ بھارت نے روائتی ووٹنگ سے مشینی ووٹنگ کی طرف آتے ہوئے تقریبا پندرہ سال کا عرصہ لیا۔ اس طویل تجرباتی مرحلے کے بعدلوک سبھا کی 543 نشستوں اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے مشینی ووٹنگ کا استعمال شروع ہوا۔ وسیع پیمانے پر اعتراضات کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ کے ساتھ ساتھ ووٹر کی تصدیق کے ایک کاغذی عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا۔
2014 کے انتخابات میں یہ چند حلقوں میں تجرباتی مشق کے طور پرا ستعمال ہوا۔اس مشق کے ذریعے پتہ چلا یا جا سکتا ہے کہ کیا مشین کے زریعے کسی ووٹر کا ووٹ اسی امیدوار کو ملا جس کے حق میں ڈالا گیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے مزید دباو ئڈالا کہ" کاغذی تصدیق" کے عمل کو وسیع کیا جائے۔ نتیجہ یہ کہ 2019 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے مزید حکم جاری کیا کہ ہر حلقے میں استعمال ہونے والی مشین سے کم از کم پانچ کاغذی تصدیق لازمی ہو،تا کہ مشین کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے۔ اس حکم کے تحت کم ازکم 20625 مشینوں کی جاری کردہ سلپس لازمی ہو گی۔
مشینی ووٹنگ کی مخالفت میں اور بھی کئی دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا آنے والے دو برسوں میں ہم دو لاکھ کے لگ بھگ مشینیں تیار کر سکیں گے؟ کیا یہ مشینیں واقعی ہر اعتبار سے مکمل ہوں گی؟ کیا ان کے ڈیٹا سے کھیلنا نا ممکن ہو گا۔ کیا ہم اربوں روپے اس کے لئے نکال پائیں گے۔ بھارت نے گزشتہ انتخابات میں 54 بلین بھارتی روپے خرچ کئے جو ہماری کرنسی میں 126 ارب روپے بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سے بھی آدھی رقم بھی خرچ ہو تو 63 ارب روپے درکار ہوں گے۔ پھر یہ کہ کیا ہم بروقت مشینوں کے استعمال کی تربیت دے پائیں گے؟ کیا ہمارے ناخواندہ یا نیم خواندہ عوام کے لئے یہ مشق مشکلات سے پاک ہوگئی۔ کیا الیکشن والے دن شہروں اور دیہات سمیت دور دراز کے علاقوں میں برقی رو کی سپلائی ممکن ہو گی؟
دونوں طرف کے دلائل کو بے شک ایک طرف رکھ دیں۔ عین ممکن ہے کہ حکومت کا موقف درست ہو اور پاکستان واقعی ہر قسم کی دھاندلی سے پاک انتخابات کرانے میں کامیاب ہو جائے۔ اور اس امکان سے بھی انکار مشکل ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی مخالفت کرنے والوں کے خدشات درست ہوں اور اگلے انتخابات ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ بن جائیں۔ ہمارے سیاستدانوں، ارکان پارلیمنٹ، دانشوروں، صحافیوں، انتخابی عمل سے متعلق تنظیموں اور دیگر متعلقہ حلقوں کو پاکستان میں انتخابات کی تاریخ پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے اکثر قومی بحرانوں نے انتخابی نتائج ہی کے مسئلے سے سر اٹھایا۔ ہماری تاریخ کے پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات بڑی حد تک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تھے۔ کسی ادارے کی طرف سے ان میں مداخلت نہیں ہوئی۔ نہ ہی گنتی میں دھاندلی کی گئی۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت کے فوجی حکمران یحییٰ خان نے ان نتائج کو تسلیم نہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں لوگوں کے احتجاج کو دبانے کے لئے آپریشن کیا گیا۔ دنیا ہمارے مخالف ہو گئی۔ بھارت کو چڑھ دوڑنے کا موقع مل گیا اور نہ صرف ہمیں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اٹھانا پڑی بلکہ پاکستان بھی دو لخت ہو گیا۔
بعد کے تمام انتخابات پر بھی ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہیں۔ اپنی اس افسوس ناک تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ مشینی ووٹنگ کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کی جائے۔ 2017 میں وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں۔ تمام جماعتوں پر مشتمل کمیٹی نے ایک سو سے زیادہ اجلاس کئے تھے۔ اور پھر انتخابی اصلاحات کا بل اتفاق رائے سے پاس ہوا تھا۔ یہ اتفاق رائے اب بھی ضروری ہے۔ اپوزیشن اور حکومت اپنے اپنے موقف پر اڑی رہیں تو یہ بڑا المیہ ہو گا۔ ماضی میں انتخابی دھاندلی کا الزام، انتخابات کے بعد اٹھتا تھا، اس بار یہ الزام انتخابات سے پہلے ہی پوری قوت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گا جس کے نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔