بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اردو کے نثر نگاروں کی چاندی ایسی چمکتی کہکشاں میں آپ کو کئی جادو اثر نثر نگار ملیں گے۔ انھیں میں ایک بے مثال نثر نگار خواجہ حسن نظامی بھی تھے۔ زندہ، توانا، شگفتہ اور سادہ نثر لکھنے والے۔ قدرتِ کلام ایسی کہ ہنسانے، رلانے دونو پر یکساں قادر۔ دلّی والے گویا دلّی کے روڑے۔ کتابوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ان سے یادگار ہے۔ انھی میں ان کی ایک مختصر خود نوشت بھی ہے۔ ”آپ بیتی حسن نظامی“ کے زیر عنوان لکھی جانے والی یہ آپ بیتی اپنی کئی خصوصیات اور خوبیوں کے باعث ناقابل فراموش کہی جا سکتی ہے اور میری پسندیدہ کتابوں میں شامل ہے۔ یہ آج سے ایک سو دو برس پہلے لکھی گئی یعنی ۱۹۱۹ء میں جب حسن نظامی عمر کے اکتالیسویں برس میں تھے۔ نظامی اس کی تالیف کے چھتیس برس بعد تک جیے۔ انیس سو پچپن میں انتقال کیا مگر غالباً اسے مکمل نہ کر سکے۔ ہاں جتنا حصہ لکھ گئے،یادگار ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ آپ بیتی، ادب کی اصناف میں جتنی قابلِ مطالعہ اور دلچسپ ہوتی ہے، اتنی ہی مشکل بھی ہوتی ہے کیونکہ اپنے بارے میں بے کم وکاست لکھنا اور سچ بولنا دنیا کے سب سے مشکل کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے لیے بڑا حوصلہ اور جگر چاہیے۔ حسن نظامی ایک ایسے ہی صاحبِ حوصلہ اور جگر دار بزرگ تھے، اپنے بارے میں ملامت کا خوف کھائے بغیر بے تکلف بہت سی باتیں لکھ گئے ہیں۔ کتاب میں حکمت کے کئی روشن موتی اور دانش کے کئی چمکتے ہیرے ہیں۔
حسن نظامی تین بزرگوں سے بیعت ہوئے۔ اولاً گیارہ برس کی عمر میں شاہ اللہ بخش تونسویؒ سے، پھر سولہ برس کی عمر میں خواجہ غلام فریدؒ سے اور آخر میں پیر سید مہر علی شاہؒ گولڑہ شریف سے چوبیس برس کی عمر میں۔ پہلی دو بیعتیں والد اور بھائی کے ایما پرہوئیں اور آخری خودان کی اپنی مرضی سے۔ حسن نظامی پیر سید مہرعلی شاہؒ سے صاحبِ اجازت تھے۔ نظامی صاحب سے ہزاروں لوگ بیعت ہوئے۔ ان کے جدِّاعلیٰ سید بدر الدین اسحٰق بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے داماد تھے۔ یہ وہی بدر الدین اسحٰق ہیں جنھوں نے نظام الدین اولیاؒ کی روحانی تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
۱۹۰۸ء میں جب حسن نظامی نے اپنے بعض مخلص احباب کے تعاون سے حلقہئ نظام المشائخ قائم کیا اور ان کے مریدین کی تعداد تیزی سے بڑھی تو درگاہِ نظام الدین اولیاء کی برادری نے ان کے خلاف محاذ قائم کر لیا۔ ان کی شدید کردار کشی کی گئی۔ پولیس میں رپورٹ کی گئی کہ حسن نظامی درگاہ میں فساد کرنے والے ہیں۔ انھی ایام میں ایک المیہ یہ ہوا کہ ان کی محبوب بیوی حبیب بانو فوت ہو گئیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے دو لڑکے راہی ملکِ بقا ہوئے۔ ان تمام دردناک مصائب میں بھی صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا اور بالآخر ان کے حریف خائب و خاسر اور ذلیل و خوار ہوئے۔ سچ ہے کہ جھوٹوں اور افتراء پردازوں کا انجام تو نوشتہئ دیوار ہوتا ہے۔ کاش وہ اسے پڑھ سکیں۔ حسن نظامی نے حضرتِ محبوب الہٰی کا ایک بے مثل قول نقل کیا ہے:”کَشندہ کُشندہ بود“ یعنی جو برداشت کر لیتا ہے وہ مار ڈالتا ہے!
نظامی صاحب نے اس آپ بیتی میں اپنے مزاج اور شخصیت کے بارے میں بہت سی باتیں
نہایت بے تکلفی سے لکھ ڈالی ہیں جن کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ چند اعترافات آپ بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
۱۔ ”میں پسند نہیں کرتا کہ جو لفظ میرے اعزاز کا اخبار و رسالے میں لکھا جائے اس میں کوئی اور بھی شریک ہو۔ واحدی صاحب مجھ کو ”حضرت“ لکھتے ہیں اور جب کبھی کسی اور کو وہ ”حضرت“ لکھ دیں تو مجھ کو ناگوار ہوتا ہے۔
۲۔ ”اب مجھ کو اتنا تجربہ ہو گیا ہے کہ خوشامد اور واقعی تعریف کو سمجھ لیتا ہوں مگر پھر بھی کیریکٹر کی کمزوری سے خوشامد میرا دل خوش کر لیتی ہے۔۔۔ میرے دل میں خوشامدی پر مہربانی پیدا ہوتی ہے“۔
۳۔ راج ہٹ، بالک ہٹ، تریاہٹ مشہور ہے۔ میں نہ راجا ہوں نہ بچہ ہوں، نہ عورت ہوں مگر میرے اندر ضد اور ہٹ کا مادہ پایا جاتا ہے۔ باوجود رائے کی بے استقلالی کے ضد کا یہ عالم ہے کہ جب ایک بات ٹھان لوں اور اس پر اڑ جاؤں تو خواہ وہ کیسی ہی نامناسب ہو اس سے دست بردار نہیں ہوتا“۔
۴۔ ”خود مجھ کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا قریبی دوست و مرید کو، میں اس کے اصلی صدمہ کو بہت کم محسوس کرتا ہوں اور غم سے مجھے رونا نہیں آتا۔ صرف محبت کے قصے یاواقعے سے آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ لکھا تھا غم کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ میرے دل کی سچّی تصویر تھی۔ میری بیوی مر گئی، دو لڑکے مر گئے۔ لڑکی مر گئی مگر میرے دل پر اس کا ذرا بھی اثر نہ ہوا۔“ حسن نظامی نے اپنے اس بے لچک اور رقت سے عاری مزاج کو ”سنگدلی“ سے تعبیر کیا ہے۔
حسن نظامی نے اپنی آپ بیتی میں بعض بڑی عمدہ اور حکیمانہ باتیں لکھی ہیں جو فکر کو مہمیز کرتی ہیں اور سوچ کا رخ متعین کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ دراصل ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عمیق تھا۔ لڑکپن اور جوانی کی غربت، شبانہ روز مجاہدوں، وسیع اسفار اور”چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا“ کے اسلوبِ زیست نے ان میں غیر معمولی خوبیاں پیدا کر دی تھیں۔ انھوں نے بعض ایسی عمدہ باتیں اپنی اس کتاب میں لکھ دی ہیں جو دیر تک ہمارے حافظے کا ساتھ دے سکتی ہیں، ایسی باتیں جن میں بصیرت اور سچائی کی پائندہ روشنی ہے، حکمت خالدہ ہے:
(ا)دل کا ٹوٹ جانا، سہاروں کا ہاتھ سے چھوٹ جانا انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔
(ب)جو شخص خوشی میں نہ اترائے اور غم میں نہ گھبرائے اس کی زندگی اس دنیا میں بہشت کی زندگی ہے۔
(ج) صوفیوں نے کہا ہے تعلقات کا کم کرنا تصوف ہے۔ میں کہتا تھا تعلقات ہی کا نام زندگی ہے۔ اب کہتا ہوں صوفی سچے ہیں۔ تعلقات کی کمی تصوف ہی نہیں بلکہ بڑی آسائش کی زندگی ہے۔ جس کے تعلقات کم ہیں اس کی تکلیفیں اور ذمہ داریاں بھی کم ہیں۔
(د) مردہ اچھا زندہ ہے کہ تعلقات نہیں رکھتا اور زندہ بُرا مردہ ہے کہ تعلقات کی سکرات میں ہر وقت مبتلا رہتا ہے۔
(ہ) فقیر کے دروازے پر جانے والا امیر بہت اچھا ہے اور امیر کے دروازے پر جانے والا فقیر بہت بُرا۔
(و) سفارش اہلِ مشرق خصوصاً مسلمانوں کو تباہ کرنے والی چیز ہے۔ دیسی ریاستوں میں ”سازش اور سفارش“ کے دو سین اور شین رات دن کام کرتے ہیں۔
(ز) جن لوگوں کو اپنے بیوی بچوں کا فکر ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ان کا کیا حشر ہو گا، وہ خدا کے انتظام کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
(ح)میری ہر تحریر میرا جھوٹا کھانا ہے کہ اس کو لکھ کر اصلی ذائقہ میں چکھ لیتا ہوں اور جھوٹا دوسروں کے حصے میں آتا ہے۔ دنیا میں ہر مصنف کا یہی حال ہے کہ لطف تو وہ خود اٹھاتا ہے اور بچی کھچی تلچھٹ دوسروں کو تقسیم کرتا ہے۔
(ط) خیال کیا کر کہ جب تیری روح کے حواس اپنی ہستی پر غور کرتے ہیں تو تجھ کو محسوس ہوتا ہے کہ تیرے جسم وجان کے علاوہ کوئی تیسری چیز جو تیرے جسم و جان کے مجموعے پر غور کر رہی ہے، موجود ہے مگر پھر بھی تجھ کو یاد نہیں رہتا اور اُسی زندہ گوشت پوست کو حسن نظامی سمجھنے لگتا ہے۔
حسن نظامی کی آپ بیتی معقول سے اوپر اٹھنے اور آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریر کو اپنا جھوٹا کھانا لکھا ہے۔ مجھے اور آپ کو شاید ہی اس سے اتفاق ہو۔ سچ یہ ہے کہ دانش اور حکمت کے موتیوں سے گندھی تحریر اپنے خالق ہی کو نہیں اپنے قاری کو بھی حظ اندوز کرتی ہے اور یہ عمل رکتا نہیں۔ کسی عرب شاعر نے کس قدر سچا شعر کہا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تحریر کاغذ پر دیر تک چمکتی رہتی ہے۔ درآں حالیکہ اس کا لکھنے والا مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔