مرزا اسد اللہ خان غالب کا شعر تو ہے کہ
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
مرزا صاحب سے معذرت کے ساتھ
ایک فون کال پہ موقوف ہے گلشن سیاست کی رونق
آئندہ کا وعدہ سہی پارلیمان کی سپرامیسی نہ سہی
وطن عزیز کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات کے ارتقا، جس کو میں ہمیشہ انحطاط کہتا ہوں،میں فون کال کا بڑا کردار رہا ہے وہ چاہے امریکی صدر بش صدر پرویز کو کرے، افتخار محمد چودھری اینڈ کمپنی کی بحالی کے لیے میاں نواز شریف اور چودھری اعتزاز احسن کا سکرپٹڈ جلوس گوجرانوالہ پہنچنے پر جنرل کیانی کرے اور جلوس کے اختتام کے ساتھ عدلیہ بحالی ہو جائے باقی فون کالز، بیان حلفی، ویڈیوز ابھی زیر سماعت ہیں لہٰذا بات کرنا مناسب نہیں۔ البتہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کافی شدومد سے تذکرہ کیا ہے کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے حالیہ مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اراکین کو فون کالز کی گئی ہیں بلکہ عامر لیاقت نے تو سرعام کہہ دیا اور شرم کو یوں بالائے طاق رکھ کر کہ سننے اور دیکھنے والے اپنے آپ کو شرم شرم سے پانی پانی ہوتا ہوا محسوس کرنے لگیں کہ ”ہم آئے نہیں، لائے گئے ہیں اور وہی لائے ہیں جو لایا کرتے ہیں“۔
وطن عزیز میں پہلی بار نہیں قابل شرم وندامت حادثات اکثر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ اجلاس جیسا واقعہ اپنی مثال آپ ہے۔ تجزیہ نگار اس کی وجہ جنرل فیض حمید کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی کے کردار کی19 تاریخ کو ہونے والی تکمیل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں موجودہ حکومت کو یہ تحفہ ان کی حالیہ تعیناتی کا شاید آخری تحفہ تھا۔ جنرل صاحب ہی کیا، آئی ایس آئی ہو یا کوئی اور ادارہ، عوامی قوتوں اور خواہشات کے بر خلاف کام کرنے اور اپنے عہدے و اختیارات کو قومی امنگوں کے خلاف استعمال کرنے والے لوگ متنازع ہی رہے ہیں۔ جنرل حمید گل ہو یا جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام ہو یا جنرل فیض حمید یا کوئی اور متنازع ہی مانا جائے گا چاہے اس کا سکہ چلے یا حکم مگر مورخ کا قلم لحاظ نہیں رکھ سکتا۔ عوام کی رائے بے باک اور دو ٹوک ہوا کرتی ہے جو شخصیات کے متنازع یا مقبول ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اگلے روز محترمہ عاصمہ جہانگیر (اللہ کریم مغفرت اور درجات بلند فرمائے) کی برسی کے سلسلہ میں تقریب منعقد ہوئی، عدالت عالیہ و عظمیٰ کے حاضر وناظر و سابقہ اعلیٰ عہدیدار ان موجود تھے۔ کرد صاحب کی تقریر کے ذکر سے پہلے ایک واقعہ یاد آ گیا، وہ لکھے دیتا ہوں۔ ہم پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک دوست شاید شاہد کاہلوں نے فلسفہ پر کتاب لکھی۔ جس میں اس نے فلسفہ کو مسلمانوں کا مضمون یا ملکیت قرار دیا مگر اس کا دیباچہ جن دوست سے لکھوایا، وہ فلسفہ کو یونانی بلکہ اس سے بھی آگے Non believer یعنی ملحدین کا مضمون مانتے تھے۔ لہٰذا فلسفہ اور کتاب کا نفس مضمون یا دعویٰ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں مقررین نے اس ضد اور موضوع کو اجاگر کیا کہ دیباچہ کتاب کے برعکس ہے۔ مجھے سٹیج پر بلایا گیا چونکہ میں کوئی فلسفی تھا نہ مقرر صرف دوست تھا، میں نے دو لفظی بات کی کہ آپ لوگوں نے تقاریر سنی ہیں۔ جن لوگوں کو دیباچہ اچھا لگا وہ باقی کتاب ضائع کر دیں جن کو کتاب اچھی لگی وہ دیباچہ پھاڑ دیں۔ قہقہہ لگا اور میں سٹیج سے اتر آیا۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر قوموں کی زندگی میں کم کم پیدا ہونے والی شخصیات میں سے ہیں۔ تقریب اور سٹیج عدلیہ دوست لوگوں کا تھا، گویا یہ کتاب عدلیہ اسٹیلشمنٹ دوست تھی حالانکہ کرد صاحب نے بھی ان کو سپورٹ کیا اور تقریب کے اہتمام میں بھی شامل ہوئے ہوں گے مگر تقریر اس کے برعکس ہو گئی۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باتیں محترم حامد خان گروپ یا مرحومہ عاصمہ جہانگیر خود کرتی تھیں۔ لہٰذا تقریب اگر کتاب اور کرد صاحب کی تقریر کو دیباچہ سمجھ لیا جائے تو دیباچہ کتاب یا پھر کتاب دیباچہ کے برعکس تھی۔
بہر حال اس تقریب میں محترم علی محمد کرد سابق صدر سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس آف پاکستان کی موجودگی میں عدلیہ کی کارکردگی اور پاک فوج کے سربراہان جنہیں ایک جنرل کہہ کر مخاطب کیا، کے متعلق جوشیلے، بھڑکیلے بے باک انداز میں جو تقریر کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے جواب میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہمیں کوئی روک سکتا ہے نہ ڈکٹیٹ کر سکتا ہے۔ عدلیہ جو فیصلہ کرنا چاہے کرتی ہے، کوئی روک سکتا اور نہ ہی کسی میں جرأت ہے۔
ان کی تقریر نے علی احمد کرد کی تقریر کو بیلنس کرنے کی کوشش کی مگر مجھے ببو برال کا لکھا ہوا ڈرامہ شرطیہ مٹھے کا ایک منظر و مکالمہ یاد آ گیا جس میں ببو برال اور امان اللہ اندھے ہیں، پیشہ ور فقیر ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکی والے دیکھنے آتے ہیں تو ببو برال اس بات کو واضح کرنے کیلئے کہ ہم اندھے نہیں۔ پنجابی میں مکالمہ بولتا ہے ”کون کہندا اے اسی انہے آں، انج سانوں نظر ای نئیں آؤندا۔ چیف جسٹس صاحب کی تقریر سے کئی واقعات جو ہمیشہ وطن عزیز کی تاریخ کے اوراق پر آپ کو آگے بڑھنے سے پہلے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے رہے ہیں، یاد آ گئے۔ پرانا وقت اور پرانا پاکستان بھول بھی جائیں، جس میں جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس انوار شیخ، نصرت بھٹو کیس، مولوی تمیز الدین کیس ہوا کرتے تھے۔ جس میں اسمبلیاں بحال کرنے سے جنرل بیگ کی طرف سے روکے جانے کا اقرار تاریخ کا حصہ ہے بھول بھی جائیں تو حالیہ فضاؤں میں موجود بازگشت جس میں جسٹس صدیقی کا ماجرہ کیا ہوا، جسٹس فائز عیسیٰ جو ابھی تک گھائل ہیں اور پھر جسٹس صدیقی نے جن پر الزام لگایا تھاان کو کوئی ایک نوٹس بھی بھیجا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ کی اپیل منکر نکیر نے سن لی مگر ہماری عالیہ و عظمیٰ نے توجہ نہ فرمائی لہٰذا چیف جسٹس صحیح فرماتے ہیں کہ عدلیہ کو کوئی روک نہیں سکتا ویسے ہی فیصلہ نہ کر پائے تو الگ بات ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار جناب احسن بھون نے بھی کرد صاحب کی تقریر کا اثر کم کرنے کے لیے کہا ہماری عدلیہ بہت اچھی ہے، بس تاثر ٹھیک نہیں۔ آقا کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کا پرسیپشن (تاثر) خراب ہو تو فوراً درست کرے۔ (مفہوم)۔ البتہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے شکریہ ادا کیا، ماضی کی غلطیوں کا اقرا کیا اور آئندہ احتیاط کرنے کی بات کی۔ بہرحال یہی سرزمین اور عدلیہ تھی نواز شریف نااہل اور ملک بدر ہوئے ہیں۔ یہی عدلیہ ہوگی واپسی ہوگی اور مقدمات بھی ختم ہوں گے اور ایسا دوسری بار ہوگا۔ کوئی کچھ بھی کہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایک پیپلز پارٹی کو نیست و نابود کرنے کے لئے سارا نظام زمین بوس کردیا گیا اور اب عوام کی رائے کو کمزور اور بے توقیر کرنے کے لیے ہر چیز ادارہ اور نظام تہہ وبالا کر دیا گیا ایک تانگے کی سواری والے مسلط کر دیے گئے۔ دکھ اور ظلم کی بات یہ ہے کہ عوام کی حالت زار پر کسی کی توجہ نہ فکر ہے۔ رعایا، عوام، محکوم ہی نہ رہے تو تم سب کے اقتدار کی بندر بانٹ کس پر حاکمیت کے لیے ہو گی۔ موجودہ حکمران ٹولہ بلکہ عمران خان اور ان کی پارٹی میں کبھی کسی نے شیخ رشید، شہباز گل، فواد چودھری، بابر اعوان، عون چودھری و دیگران کا سوچا بھی تھا۔ موجودہ حکمران اتحاد کا وطن عزیز پر مسلط ہونا قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ سب خامیاں، خرابیاں اور دھاندلی ہونے کے باوجود اگر یہ عوام کے دکھ درد کو محسوس کرتے، ان پر زندگی آسان کرتے تو اور بات تھی۔ مگر عوام کو زندہ درگور کر کے یہ اگلے پانچ سال بھی سوچ رہے ہیں کہ حاکم رہیں گے، خان صاحب جب کنٹینر سے گرے تھے تو ہسپتال سے عوام کو پیغام دیا تھا کہ میرے تو پانچ سال گزر جائیں گے مگر آپ کے نہیں گزریں گے لہٰذا ووٹ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا۔ محترم خان صاحب عوام کے پانچ سال تو گزر گئے بلکہ 70 سال گزر گئے مگر آپ کے تین سال تین صدیوں سے زیادہ کربناک ہو گئے۔
اگر موجودہ حکمران ٹولہ مزید رہا تو پھر مزید بربادی ہو گی، قدرت اپنا نظام چلانے میں بے باک اور دو ٹوک ہے، اس کے نظام کو حرکت میں آنے کی ہر پل دعوت نہ دیں، حکومت نے NRO کا سلسلہ جاری کر کے بہت مثبت قدم اٹھایا ہے۔ مولانا سعد رضوی کی رہائی اور کالعدم ٹی ایل پی کو بحال کرنا احسن اقدام ہے۔ اب تھوڑی سی ہمت اور کرے، باقی کالعدم تنظیموں کو بھی پابندیوں سے آزاد کرے اور جیلوں میں بند تمام حوالاتیوں اور قیدیوں کو بیان حلفی اور نیک چلن کے وعدے پر رہائی دے تاکہ ملک میں انصاف پر مبنی نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔