اسلام آباد : جسٹس منیب اختر نے پنجاب میں انتخابات کے لیے دی گئی تاریخ پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انتخابات سے پنجاب، خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں۔ عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی کی جانب سے دائر نظرِ ثانی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اور پنجاب حکومت نے عدالت میں جو جواب جمع کرایا وہ ہمیں ابھی ملا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شاید تحریک انصاف نے جواب جمع نہیں کرایا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ تمام جوابات کا جائزہ لینے کے لیے موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں شکوہ کیا کہ کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے یہ بتاناہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے نکات اٹھاسکتے ہیں۔
وکیل الیکشن سجیل سواتی نے دلیل دی کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے۔ تاہم وکیل الیکشن کمیشن نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہو کر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات سے پنجاب خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظر ثانی کیس میں آپ کا مؤقف ہے کہ دائرہ کار محدود نہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا۔