ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی سیاست میں اتھل پتھل کا عمل جاری بلکہ عروج پر ہے،سیاستدان سیاسی اور منتخب ارکان پارلیمانی فیصلے کرنے اور معاملات کو سلجھانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں،الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے لوٹا بن جانے والے25ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد پنجاب کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر ہلچل ہے،ان منحرف ارکان نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا،قبل ازیں سپریم کورٹ اپنے فیصلہ میں ان لوٹا بن جانے والوں کی نا اہلی کا گیند پارلیمنٹ کے پول میں پھینک کر ان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ صادر کر چکی ہے،جس کے بعد حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں،تحریک انصاف کی طرف سے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،جبکہ چودھری پرویز الٰہی جو حمزہ شہباز کے مقابل وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے ، حمزہ شہباز کے انتخاب کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کیلئے قانونی آئینی ماہرین سے مشورے کر رہے ہیں،سیاسی چلن نشاندہی کر رہا ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی بڑا سیاسی دھماکہ ہوا تو اس کی وجہ بھی پنجاب میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی اور افراتفری ہو گی،صوبہ ایک مدت سے گورنر کے بغیر چل رہا ہے یعنی آئینی سربراہ سے محروم ہے،قبل ازیں صوبہ کئی روز تک انتظامی سربراہ سے محروم رہا،گورنر عمر سرفراز چیمہ نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر دیا،ان کی نظر میں بزدارآج تک وزیر اعلیٰ ہیں اسی بناء پر گورنر نے حمزہ شہباز سے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے سے بھی انکار کر دیا،وزیر اعظم شہباز شریف دو مرتبہ گورنر کو سبکدوش کرنے کی ایڈوائس صدر مملکت کو ارسال کر چکے ہیں مگر صدر نے ان کی ایڈوائس پر عمل نہیں کیا،سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی قائم مقام گورنر کی ذمہ داریاں قبول نہیں کیں،ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کیخلاف تحریک عدم اعتمادآچکی ہے مگر اس پر کاؤنٹنگ کا عمل رکا ہواہے،لگتا ہے کہ اب سیاسی اور پارلیمانی بلکہ انتظامی امور کیلئے بھی عدلیہ پر انحصار کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے ان ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے فیصلہ کے بعد پنجاب میں سیاسی مطلع مزید کہر آلود ہو گیا ہے،طرفین کی جانب سے آئینی موشگافیاں جاری ہیں مگر دکھائی نہیں دیتا کوئی فیصلہ سیاسی میدان میں حل ہو اس کیلئے بھی آخر کار عدالت سے ہی رجوع کرنا پڑے گا،مگر دیکھنا یہ کہ منحرفین کے حوالے سے فیصلہ کے بعد پارٹی پوزیشن کیا ہے اور اخلاقی صورتحال کس بات کا تقاضا کر رہی ہے،اس صورتحال میں آزاد اور ن لیگ سے ناراض ارکان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے،ایک ایک ووٹ قیمتی ہو گیا ہے اور فریقین جوڑ توڑ میں مصروف کار ہیں،یہ بات بھی یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہوتا ہے تو اکثریت حاصل کرنے والی جماعت بھی وہ سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی جو وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے درکار ہیں،اعدادو شمار کے لحاظ سے کامیاب امیدوار کو186 ارکان کی حمائت حاصل ہوناآئینی طور پر ضروری ہے،فریقین میں سے کسی کو بھی اس قدر ارکان کی حمایت حاصل نہیں،عددی اعتبار سے ن لیگ کے160 ارکان ہیں جبکہ انہیں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران انہیں تحریک انصاف کے25منحرف ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی،جو اب رکن اسمبلی نہیں رہے،پیپلز پارٹی کے سات اور راہ حق پارٹی کے ایک رکن کی بھی ن لیگ کو حمایت حاصل تھی،چار آزاد ارکان بھی ن لیگ کے حامی ہیں،یوں ن لیگ کو ایوان میں 172ارکان کی حمائت حاصل ہے،جبکہ چودھری نثار نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا،دوسری طرف تحریک انصاف کے163ارکان ہیں جبکہ ق لیگ کے دس ارکان بھی ان کے ساتھ ہیں،اگر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کا ووٹ نکال دیں توتحریک انصاف کو172ارکان کی حمایت حاصل ہے،اس طرح عددی اعتبار سے دونوں کا پلہ برابر ہے۔
یہ تو تھی پارٹی پوزیشن مگر کچھ معاملات عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں،رکن اسمبلی سبطین خان اور چودھری پرویز الٰہی کی پٹیشنز اس حوالے سے اہم ہیں اگر چہ گورنر ہاؤس مکینوں سے خالی ہے مگر صدر مملکت نے تاحال گورنر پنجاب کو عہدے سے نہیں ہٹایا اور بحیثیت گورنر عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا تو معاملات مزید سنجیدہ ہو جائیں گے اور ایک بار پھرآئینی معاملات عدالت کے مرہون منت ہو جائیں گے،ن لیگ اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے مگر وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے دوران انہوں نے25منحرف پی ٹی آئی ارکان کے ذریعے ووٹ کو عزت دینے کے اپنے ہی نعرے کا بھرکس نکال دیا،اور اب الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد عہدے سے چمٹے رہنے کے بعد بھی انہوں نے جمہوری اور پارلیمانی روایات کو پامال کیا ،وزیر اعلیٰ کے الیکشن کے دن ڈپٹی سپیکر اور سپیکر کے ساتھ جو مار پیٹ اور تشدد کیا گیا وہ بھی جمہوری طرز عمل نہ تھا،اول تو اخلاقی طور پر حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ کیس میں بریت تک اتنا بڑا عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے تھا،پارٹی ان کو پیشکش کرتی تو وہ خود انکار کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور کہتے کہ جب تک وہ اس الزام سے سرخرو نہیں ہو جاتے وہ کوئی سرکاری منصب نہیں سنبھالیں گے،یہی رویہ شہباز شریف کو بھی اپنانا چاہئے تھا،مگر ملکی سیاست میں ایسی روایات دیکھنے کو نہیں ملتیں شایداس کا رواج ہی نہیں ہے،انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ایف آئی اے کے تفتیشی افسروں کو تبدیل کیا،ایف آئی کو عدالت میں کیس کی مزید سماعت سے روکا،اگر چہ اس حوالے سے بھی سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی اور تفتیشی افسروں کے تبادلے روک کر ایف آئی آر کا تمام ریکارڈ سیل کرنے کا حکم صادر کر چکی ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتظامی،سیاسی اور پارلیمانی معاملات میں کب تک عدالتیں فیصلے صادر کرتی رہیں گی اور نا پسندیدہ فیصلوں پر مداخلت کے الزام لگتے رہیں گے،کب ہمارے سیاستدان بالغ نظری کا مظاہرہ کریں گے؟
مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک عوام کے مفاد میں جو فیصلے کئے وہ پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات کا تسلسل ہیں،ورنہ ان کی ساری تگ و دو اس بات تک ہے کہ ان کے مقدمات داخل دفتر ہو جائیں دوسری کوشش ایسی انتخابی اصلاحات ہیں جن کے ذریعے یہ خود آسانی سے آئندہ مستقل اقتدار میں رہ سکیں،عوام ان کیلئے بھی سوتیلی اولاد ہے،ابھی سے پٹرول اور بجلی پر دی جانیوالی سبسڈی ختم کرنے کے حق میں دلائل آنا شروع ہو گئے ہیں جلد یا بدیر قیمتوں کو بھی جمپ دینا پڑے گا اور الزام لگے گا سابق حکومت پر،جملہ معترضہ کے طور پر عمران خان کو بھی ایک مشورہ ہے کہ وہ اداروں پر طعن و طنز کے تیر برسانے کے بجائے اپوزیشن کو ہی ہدف رکھیں ورنہ،’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘۔