ملکی سیاست سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ یہ میرا پسندیدہ موضوع گفتگو رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ سے سیاست سے دل اچاٹ ہوا جاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے ہماری سیاست ہیجان ، انتشار اور عدم برداشت کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔ بہت سے دوست احباب کی یہی کیفیت ہے۔ وہ جو سیاسی موضوعات اور معاملات میں دلچسپی لیا کرتے تھے۔ وہ اب اکثر اس سے بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا آج بھی ہمارے ہاں بہت سے اچھے اور سلجھے ہوئے سیاستدان موجود ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں کہ جب وہ کسی جلسے میں، ٹی وی پروگرام میں، یا پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہیں تو ان کی گفتگو سن کر آدمی کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے قومی سیاست میں عدم برداشت، انتشار، بد کلامی اور بد اخلاقی کا ایک طوفان بپا ہے۔ یقینا اس کے ذمے دار مخصوس سیاستدان ہیں ، جنہوں نے اپنے مفاد کی خاطر بدکلامی اور الزام تراشی کو شعوری طور پر رواج دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے پیروکار بھی اسی روش پر چل نکلے ہیں۔ وہ گالی گلوچ سن کر تالیاں پیٹتے ہیں اور اپنی روزمرہ زندگی میں گالی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ سیاسی مخالفین پر پر الزام تراشی کرنا۔ ان پر کیچڑ اچھالنا۔ ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنا، نہایت عام ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژ ن کے سیاسی مذاکرے جو ایک زمانے میں نہایت مقبول ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنی مقبولیت بھی کھو بیٹھے اور ساکھ بھی۔ ان کی اثر انگیزی اور افادیت پہلے جیسی نہیں رہی۔
قومی سیاست میںآئے روز کوئی نہ کوئی ایسا قصہ سامنے آجاتا ہے جسے سن کر سیاست سے بے دلی مزید بڑھ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں در آنے والی یہ پستی نجانے کہاں جا کر رکے گی۔ آج کل عمران خان کے مریم نواز شریف کے بارے میں کی جانے والی غیر اخلاقی باتیں زیر بحث ہیں۔عمومی طور پر عمران خان گفتگو کرتے ہوئے زبان و بیان کا خیال نہیں رکھتے۔ ان کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ ڈالتے ہیں اور پروا نہیں کرتے کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ اس کے باوجود ان سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اس انتہائی غیر شائستہ انداز میں مریم نوا شریف کو ان کی صنف کے حوالے سے تختہ مشق بنائیں گے اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں اس سہولت سے کہہ ڈالیں گے۔ ملتان میں ہونے والے ایک جلسے میں انہوں نے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کو بتایا کہ مریم نواز شریف نہایت جوش و جذبے سے ان کا نام لیتی ہیں۔ انہوں نے مریم نواز شریف کو مخاطب کر کے پیغام دیا کہ اس طرح میرا نام نہ لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا شوہر برا مان جائے۔
عمران خان نے جب سے یہ جملے کہے ہیں، ہر جانب سے ان کی مذمت ہو رہی ہے۔ عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کسی خاتون کی صنف یا جنس کو بنیاد بنا نا، یوں غیر اخلاقی باتیں کرنا ، جنسی ہراسانی ہے۔ عمران خان کا یہ رویہ یقینا قابل مذمت ہے۔ کچھ عرصہ سے عمران خان نے ایک نیا طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے۔ وہ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح تھامے رکھتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں قرآن و احادیث کے حوالے دیتے ہیں۔ ان کا سوشل میڈیا سیل نماز پڑھتے ان کی تصاویر جاری کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ چند برس سے ان کی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کا ذکر ملتا ہے۔ وہ اس خواہش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان سب باتوں کے ساتھ کسی خاتون کی کھلے عام تحقیر و تذلیل کرنا نہایت افسوسناک بات ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب عمران خان نے مریم نواز شریف کے بارے میں یہ باتیں کیں تو جلسہ گاہ میں موجود لوگوں نے ان باتوں کے جواب میں نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ تالیاں پیٹیں۔ پرجوش آوازیں بلند کیں اور سیٹیاں بجائیں۔ اندازہ کیجیے کہ سیاست کو ہم نے کیا سے کیا بنا ڈالا ہے۔ یعنی عمران خان کے پیروکار ان باتوں پر خوشی کا اظہار کیا اور ایک طرح سے انہیں تھپکی دی۔
تحقیق بتاتی ہے کہ عوام اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی طرز گفتگو اور طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ سیاستدان اگر شائستگی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے پیروکار بھی ایسا طرز عمل اختیار کریں گے۔ اگر وہ گالی کی زبان میں بات کرتا ہے تو پیروکار بھی وہی کریں گے۔ وہ اگر بدکلامی اور الزام تراشی پر اتر آتا ہے ،تو اس کے چاہنے والے بھی یہی رویہ اپنائیں گے۔ وہ اگر خواتین پر رکیک حملے کرے گا تو اس کے سپورٹر بھی یہی طرز عمل اور طرز فکر اختیار کر لیں گے۔ عمران خان نے مریم نواز شریف کے بارے میں جو کچھ کہا، اس کے جواب میں ان کے پیروکاروں نے جس طرح ان کی گفتگو پر اظہار پسندیدگی کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ واقعتا پیروکار ، اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی ہر بات کو فالو کرتے ہیں۔
البتہ مثبت بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے سپورٹر اور چاہنے والوں کے بڑے حلقے نے عمران خان کے ان الفاظ پر اظہار نا پسندیدگی کیا ہے۔
عمران خان عمر رسیدہ آدمی ہیں۔ مریم نواز ان کی بیٹی کے برابر ہیں۔ بہرحال اب سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہے۔ عمران خان کے چاہنے والے موجود ہیں تو مریم نواز کو پسند کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے پیروکار ا ب عمران خان کے ماضی سے متعلق سیتا وائٹ اور ٹیریان کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ سیاست کا یہ رخ دیکھنا نہایت افسوسناک ہے۔ ملک دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ اور یہاں ہم کھیل تماشوں میں الجھے ہیں۔
افسوس کہ تحریک انصاف یا عمران خان کی طرف سے ابھی تک معذرت کے الفاظ سنائی نہیں دئیے۔ بلکہ عمران خان کی باتوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کے کچھ حمائتی نوے کی دہائی میںبے نظیر بھٹو کے خلاف کی جانے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہیں۔بات یہ ہے کہ خواتین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو کوئی بھی سیاسی رہنما کرے۔ یہ گفتگو بے نظیر بھٹو کے خلاف ہو، مریم نواز شریف کے یا کسی بھی خاتون کے بارے میں، وہ قابل مذمت ہے۔ دوسری بات یہ کہ نوے کی دہائی کو بیتے پچیس تیس برس ہو چکے ہیں۔ اتنے عرصے بعد صرف ایک غلط بات کو ٹھیک ثابت کرنے کے لئے اس بات کا حوالی دینا بے معنی ہے۔
ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ خواتین ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یوں بھی حقوق نسواں کی حالت اچھی نہیں۔ خواتین کو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ صرف گھروں کے باہر، بلکہ اکثر و بیشتر گھر کی چا ر دیواری میں بھی۔ گھر سے باہر ملازمت کرنا بھی ان کے لئے ایک مشکل کام ہے۔ انہیں مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاست تو یوں بھی ایک غیر روائتی شعبہ ہے۔ کسی خاتون کیلئے میدان سیاست میں اترنا بالکل آسان نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر تو پھر بھی سہولت سے سیاست کی جا سکتی ہے۔ مگر گلی محلے میں نکل کر، شہروں شہروں گھوم کر عوا م کو ترغیب دینا۔ جلسے جلوس کرنا۔ سیاست کی وجہ سے جیلوں میں ڈالے جانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو یا مریم نواز شریف بننا ہر گز آسان نہیں ۔یہ جان جوکھم میں ڈال کر کیا جانے والا کام ہے۔
کسی مرد کو اگر مقابلہ کرنا ہے تو کسی خاتون سیاسی رہنما کو تختہ مشق بنانے ، اس کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنے کے بجائے، میرٹ پر اور سیاسی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے، اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔