ایک ایمرجنسی کے طور پر اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس حکومت کا کتنا قصور تھا، تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے، جبکہ عوام کو ریلیف ملنے کی امیدیں بھی دم توڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ کیونکہ آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط انتہائی سخت شرائط کے ساتھ ہی جاری ہو گی۔ ملکی معیشت اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہو چکی ہے اس سے عام فرد سے لے کر پالیسی ساز اور تمام سٹیک ہولڈرز بخوبی واقف ہیں۔ کیا ایسے وقت میں جب معیشت تباہی کے دہانے پر ہو، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہو، صنعتی پہیہ رک چکا ہو یا عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہو، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہو، کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر جلسے جلوس کرتے رہیں، سیاسی کشیدگی کو بڑھاتے رہیں۔ پاکستان کے سیاست دانوں کا سیاست اور حکومت کرنے کا انداز ہماری سیاسی تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمرانوں کا ہمیشہ سے ہی یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ عوام سے حقائق چھپانے کے لیے ہر طرح کے حربے آزماتے ہیں۔ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے فرضی اور جعلی اعداد و شمار پیش کرنا، ترقی اور خوشحالی کے خوش کن دعوے پیش کرنا، جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری اقدامات کرنا ان کی زندگی میں رچ بس گئے ہیں۔ ہر حکومت اپنی ناقص کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کو اپنی حکمت عملی قرار دیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ایک ہی رٹ ہوتی ہے کہ ’’ہم نے مختصر سے عرصہ میں ملک کی کایا پلٹ دی ہے۔‘‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم، حکومتی وزراء اور حکومتی ترجمانوں کے بیانات جھوٹ کا پلندہ ہوتے ہیں اور پراپیگنڈے پر مشتمل یہ خوش کن بیانات حکومت کے اپنے ادارے شماریات کی رپورٹوں اور سرکاری طور پر جاری ہونے والے اقتصادی سروے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ کیا ہماری قومی ذمہ داری نہیں بنتی کہ تمام سٹیک ہولڈرز اور پالیسی ساز ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور معیشت کو گرداب سے باہر نکالنے کی جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔ کیا سابق وزیراعظم اور ان کی سابق وفاقی کابینہ و معاشی ماہرین نہیں جانتے کہ ملکی معیشت کن مشکلات سے دوچار ہے۔ ذاتی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کا سوچنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کے مطابق سابق پی ٹی آئی حکومت نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پٹرول پر دی، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دہ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بُرے حال میں ہے لیکن یہ کہ وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملکی معیشت میں جلد بدلاؤ کی امید ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ اپریل کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 63 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہا اور اپریل کا خسارہ 9 ماہ کے اوسط خسارے کا آدھا ہے جو اچھا اشارہ ہے۔ جبکہ یہ بیرونی استحکام کے لیے بھی بہت اچھا اشارہ ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی
معیشت میں بہتری لانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے یا اُمید دلائی جا رہی ہے۔ دراصل یوکرین کی جنگ، سپلائی چین میں خلل اور عالمی طلب میں بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کو مزید تقویت ملی ہے۔ اشیا کی بین الاقوامی قیمتیں نہ صرف مہنگائی کو بلند رکھتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے بیرونی کھاتے اور اس وجہ سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ ہیں۔ وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں بوجھ ڈال رہے ہیں۔ معاشی ماہرین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جوں جوں درآمدات بڑھ رہی ہیں، درآمدات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ اب اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہماری مجموعی صنعتی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے ہماری اپنی صنعتیں دباؤ کا شکار ہیں۔ توانائی کے بحران اور توانائی کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والے اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ہمارے پیداواری اخراجات ریکارڈ حد تک بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم اب عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل ہی نہیں رہے۔ افسوناک صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے 44 ماہ کے دوران زراعت سمیت پیداواری شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا اور اہم برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل کپاس کی پیداوار میں تقریباً 60 فیصد کمی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہمیں اپنی کپاس کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر کے اسے باہر سے درآمد کرنا پڑا جس سے ہماری معیشت مزید دباؤ میں آ گئی۔ دوسرے گندم اور چینی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ان کی درآمد پر بھی بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا۔ سابقہ حکومت پیداواری شعبے کو بحران سے نکالنے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ سیاسی جنگ میں مصروف رہی۔ جس کی وجہ سے ملک و قوم کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مالی سال 2022ء میں صنعتی نمو میں کمی کی پیشگوئی کی گئی ہے، کرنسی میں گراوٹ، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی بڑھانے کے لیے مثبت اشارے دے رہا ہے۔ افراطِ زر کی شرح مالی سال 2022ء میں 11 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں افراطِ زر پر دباؤ بڑھائیں گی۔ پاکستان میں صنعت کاری کے بجائے صنعت ہی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ برس میں ہماری درآمدات بہت بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے معیشت پر بہت بوجھ ہے۔ ہمیں غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ آج بھی ہمارا پیسہ درآمد کردہ مکھن، چاکلیٹ، کار، موبائل فونز، کتے اور بلیوں کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے ان تمام اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے تاکہ ہم زرمبادلہ کو بچا سکیں۔ دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مزید قرضے نہ لے، توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ جب قرضے زیادہ لیں گے تو یقینا اس پر سود بھی دینا پڑے گا جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی گئی لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا لیکن ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کو ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے ٹیکسز ٹارگٹڈ ہونے چاہئیں جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے، ان پر ٹیکس کم کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔ حکومت نے ساری درآمدات پر ٹیکسز لگائے جس کی وجہ سے خام مال کی قیمت بڑھی اور اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور معیشت کو نقصان پہنچا۔