پاکستان ’’اعداد کے جادوگروں‘‘ کا ملک ہے جو ہمیشہ عوامی خواہشات کو ’’چھو منتر‘‘ کر جاتے ہیں۔ قطری خط سے لے کر بھارتی کھتری اور امریکی چھتری سے لے کر فوجی برتری تک سب کچھ ہمارے سیاسی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہی کے گرد ’’غداری‘‘ اور ’’کفر‘‘ کے فتوے جاری کرنے والے دہائیوں سے ہر کھیل کھیلتے رہے ہیں اور ابھی نہ جانے کب تک کھیلیں گے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بیرونی مداخلت تھی اور نہ ہی کوئی اندرونی سازش۔ البتہ یہ صرف اور صرف اندرونی کمک تھی جو اسے بر وقت پہنچ گئی اور حالت نزع میں دم توڑتی عمرانی سیاست کو آکسیجن کا سلنڈر فراہم کر گئی۔ عمران خان پاکستانی سیاست کا ’’اڑتا تیر‘‘ بن چکا ہے سو اس کے سامنے سینہ یا پشت کرنا دونوں ہی حماقتیں تصور کی جائیں گی۔ البتہ ہر تیر اور گولی کی ایک رفتار اور طاقت ہوتی ہے جس نے کہیں نہ کہیں دم توڑ کر گرنا ہوتا ہے۔ وہ کرکٹ کے میدان سے سیاست کے میدان میں آیا اور اب اس ملک کو حشر کا میدان بنانا چاہتا ہے۔ اُس کی خواہشات اُس کے عمل کے بر عکس ہیں۔ وہ انقلاب کی بات کرتا ہے لیکن بغیر کسی نظریے یا معاشی ایجنڈے کے۔ وہ بے ہنگم ہجوم سے انارکی تو کرا سکتا ہے لیکن پاکستان کے جغرافیے میں بسنے والے تمام کرپٹ، بد دیانت، ملک دشمن اور غدار ختم یا قتل کرنے کے بعد بھی بچ جانے والے صالحین کے لیے اس مادی زندگی کا کوئی قابل عمل پروگرام نہیں فراہم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔
عمران خان نے زندگی میں صرف ایک سچ بولا ہے اور خوب بولا ہے ’’تحریک انصاف کو صرف تحریک انصاف ہی برباد کر سکتی ہے‘‘۔ پاکستان بلکہ ساؤتھ ایشیا کا یہ المیہ ہے کہ یہاں
نظریاتی نہیں شخصیاتی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سے بھٹو خاندان نکال دیں تو بات ختم۔ مسلم لیگ ن سے نواز شریف منفی ہوا تو شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز سے مل کر بھی یہ ملک چلنا مشکل ہو گیا ہے اور پارٹی الگ سے گروپنگ کا شکار ہو چکی۔ جمیعت علمائے اسلام ف سے مفتی محمود خاندان نکال کر دیکھیں صرف ’’ف‘‘ بچے گا یعنی ’’فضول‘‘۔ اے این پی سے باچا خاندان مائنس ہو ہی نہیں سکتا۔ ایم کیو ایم سے الطاف حسین نکال کر آپ نے دیکھ لیا کہ کتنے ٹکرے ہوئے۔ سو تحریک انصاف بھی صرف اور صرف عمران خان کا ہی نام ہے اس کے بغیر تحریک انصاف کوئی وجود نہیں رکھتی۔ اس سیاسی ’’جُگل بندی‘‘ میں اگر عمران خان یہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف کو صرف تحریک انصاف ہی برباد کر سکتی ہے تو دراصل وہ یہ ذمہ داری قبول کر رہا ہے کہ یہ میری جماعت ہے اور اسے برباد کرنے کا حق بھی میرے سوا کسی دوسرے کو ہرگز نہیں اور الحمد للہ وہ یہ کام 2011 کے بعد انتہائی جفا کشی سے سر انجام دے رہا ہے۔ سیاسی جماعت بناتے وقت سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اُس کی عمر کا تعین اپنی نہیں ریاست کی عمر کے ساتھ کرتے ہیں کیونکہ فرد کی موت کے ساتھ نظریہ نہیں مرتا اور اگر سیاسی جماعت فرد کی موت کے بعد ختم ہو جائے تو وہ سیاسی جماعت نہیں ’’فین کلب‘‘ یا ’’لور گروپ‘‘ کہلاتا ہے جو ہر سماجی ہیرو کی دسترس میں ہوتا ہے لیکن ہر سماجی ہیرو اسے اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ اپنے ملک میں تو قومی سیاست کی دکان کھولنا ’’ممنوعہ علاقے‘‘ میں بغیر اجازت کے آوارہ گردی کرنے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستانی سیاسی شاہرا ہ پر جلی حروف میں لکھا ہے ’’یہ شارع عام نہیں‘‘۔
لوگوں کو ضرور سننا چاہیے کہ اس سے عوامی
رائے آپ تک پہنچتی رہتی ہے لیکن آپ کو ہمیشہ اپنی رائے اپنے علم کی بنیاد پر بنانی چاہیے اور اگر اس کے بعد بھی آپ کی رائے کسی نا پسندیدہ فرد کی رائے سے ملتی ہو تو رائے بدلنے کے بجائے اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔ عمران خان کے پہ در پہ جلسوں کی یلغار کو یار لوگ اُس کی مقبولیت کی انتہا سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے معروضی حالات کا تجزیہ کبھی بھی عالمی معروض اور اپنے اداروں کی بساط سے ہٹ کر نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے جلسوں نے بلا شبہ ایک پریشر حکومت اور ریاستی اداروں پر بڑھایا ہے جو عمران خان کو این آر او دلوانے کی پوزیشن میں لے آیا ہے۔ اب رہی بات کہ ان جلسوں کو بنیاد بنا کر آنے والے الیکشن کا تجزیہ کرنا اور کوئی حتمی رائے نہ صرف قائم کر لینا بلکہ اُس سے عام آدمی کا ذہن خراب کرنا کسی طور بھی درست نہیں۔ عمران خان کے آج تک کے جلسوں نے صرف ایک کام کیا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے میدان میں ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف پرو اور دوسری طرف اینٹی امریکہ سمجھی جانے والی سیاسی جماعتیں کھڑی ہیں۔ شاید عدم اعتماد کامیاب کرانے والوں کی خواہش، مرضی اور منشا بھی یہی تھی۔ اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے لیے کونسے فرشتے آنے والے ہیں؟ وہی لوگ ہیں! وہی انتظامی مشینری ہے! اور اس بار بھی نتائج وہی ہوں گے جو اس ملک کے ’’مستقل حکمران‘‘ چاہیں گے۔ مگر نتائج سے بہت پہلے ’’نظر نہ آنے والے‘‘ حکمرانوں کے پاس عالمی مزاج کو ہموار کرنے کے لیے یہ کہانی ضرور ہو گی کہ ’’آپ کے گھوڑے پٹ رہے ہیں جناب‘‘! اس کے بعد مزید لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہو گا لیکن جو ہو گا وہ پاکستان کے لیے تو وقتی طور پر شاید بہتر ہو جائے لیکن پاکستان کے پُر عزم نوجوانوں کی امیدوں کو ادارتی سونامی بہا لے جائے گی۔
عمران خان الیکشن کی تاریخ مانگ رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی کے سپیکر یا ڈپٹی سپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو ’’سازش‘‘ اور ’’مداخلت‘‘ کہہ کر مسترد کیا تھا تو اسی وقت آئین کے خلاف سازش کرنے، زور آزمائی کرنے، اس سازش اور مداخلت کے معاونوں، مددگاروں اور سہولت کاروں پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کیوں نہیں ہوا؟ فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔ اب دوسری طرف اگر عدالت نے سابق وزیر اعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، قومی اسمبلی اور ہم نواؤں کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ہے تو موجودہ حکومت اُن پر آرٹیکل6 کا اطلاق کیوں نہیں کر رہی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی قبیلے کے لوگ ہیں۔ ان کی آئین یا پاکستانی عوام سے وفاداری مشکوک ہے۔ سیاست کے اس میدان میں دونوں جانب کھیلنے والی ٹیموں کی گول پوسٹ ایک ہی ہے بس جب ایک ٹیم گول کرنے کے نزدیک پہنچتی ہے تو دوسری ٹیم کے کھلاڑی اُسے صرف اس لیے روک لیتے ہیں کہ یہ گول تو انہوں نے خود کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان اس کھیل تماشے میں دبے پاؤں ایک ’’مہا بحران‘‘ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی خوفناکی اور ہولنا کی کا تصور بھی کرتا ہوں تو روح بھی کانپ جاتی ہے لیکن میرے اعداد کے جادوگر ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی صدا لگا رہے ہیں۔