عمران خان حکومت نے منحرف اراکین اسمبلی کی تاحیات نا اہلی کے لیے جو صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے تین دو کی اکثریت سے مختصر فیصلہ سنا دیا ہے۔ توہین عدالت کے ڈر سے اس فیصلہ پر کیا کہا جائے اور کیا نہ کہا جائے تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ماضی کی عدلیہ کا فیصلہ لگتا ہے۔ وہ عدلیہ جو نظریہ ضرورت کی شائق تھی۔ ایک طبقہ کی رائے تو یہ ہمیشہ سے رہی ہے کہ پاکستان میں نظریہ ضرورت کبھی دفن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو دفن کرنے کی مخالفت کرنے والے اتنے با اثر ہیں کہ جس کو چاہتے کرسی پر بٹھا دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں کرسی سے گرا دیتے ہیں۔ ہر کوئی قاضی فائز عیسیٰ تو نہیں ہوتا جو بچ جائے۔ کچھ شوکت صدیقی جیسے بھی تو ہوتے ہیں جو قصہ پارینہ بن جاتے ہیں لگتا ہے کہ عمران خان کے جلسے بہت جلد رنگ لے آئے تبھی تو نظریہ ضرورت ایک بار پھر نیا بھیس بدل کر ہمارے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ جو موجودہ حکومت اور الیکشن کمشنر کو اس بات پر مجبور کرنے کا حکماً عندیہ دے رہا ہے کہ اب الیکشن ہو جانے چاہیے یقینا اس عمل سے سیاسی ریاستی ادارے دیمک کا شکار ہو رہے ہیں۔ بظاہر تو سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جمہوری حکومتوں میں نقب زنی کرنے والوں کی مستقبل قریب میں مزید حوصلہ افزائی ہو گی صدارتی ریفرنس پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید اور موجودہ اٹارنی جنرل واشگاف کھلے لفظوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ ہر رکن اسمبلی ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے اور صدارتی
ریفرنس کے بنچ کے سربراہ بھی یہی آبزرویشن دیتے رہے ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے والے ارکان اسمبلی کے ووٹ کو تسلیم نہ کرنا توہین ہے مگر اب جب صدارتی ریفرنس پر مختصر فیصلہ آیا ہے تو اس نے ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے تاہم منحرف اراکین اسمبلی کی نا اہلی کی مدت کا تعین کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو تفویض کر دیا ہے اور بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹ اس کے لیے قانون سازی بھی کرے فیصلہ جو آنا تھا وہ آچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں یہ تو واضح کر دیا ہے کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا مگر جب حتمی تفصیلی فیصلہ آئے گا تو پتہ چلے گا اس کا اطلاق ماضی کے چناؤ یا موجودہ صورت حال پر ہو گا۔ مختصر فیصلہ میں یہ کہا گیا ہے جو اراکین اسمبلی نے اپنی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہیں کیا منحرف ہو کر علیحدہ ہو گئے ان کا ووٹ اکاؤنٹ نہیں ہو گا ایسے لوگوں کو منحرف ہونے سے روکنا ہے کیونکہ آرٹیکل 63اے میں درج ہے کہ بجٹ فی بل۔ آئینی ایمنڈمنٹ ، پرائم منسٹر یا چیف منسٹر کا الیکشن میں منحرف اراکین کو ووٹنگ کرنے سے روکنا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اگر یہ ووٹ اکاؤنٹ نہیں ہوتے تو نیشنل اسمبلی میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ منحرف تحریک انصاف کے اراکین نے ووٹ نہیں کیے تھے البتہ پنجاب اسمبلی کے اندر تحریک انصاف کی چھبیس منحرف اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے تھے۔ اگر ان کو نکال دیا جائے یا ان ووٹو ں کو اکاؤنٹ نہ کیا جائے یا ان اراکین کو ڈس کوالیفائی کر دیا جائے خواہ اس کا دورانیہ مدت جو بھی ہو تو حمزہ شہباز کو اس وقت ووٹ آف نو کونفیڈنس پاس کرنا بہت بڑا مسئلہ ہو گا لہٰذا اس فیصلہ کا اثر پنجاب اسمبلی کے اوپر ہے اب اس فیصلہ کی وجہ سے حمزہ شہباز کو جن منحرف اراکین اسمبلی نے ووٹ دیا تھا اگر تفصیلی فیصلہ آنے پر ان کا ووٹ حمزہ شہباز کے چناؤ میں کاؤنٹ نہ ہوا تو حمزہ شہباز کے پاس پنجاب اسمبلی کے اندر اکثریت ختم ہو جائے گی اس طرح حمزہ شہباز کو ایک بار پھر ووٹ لینا پڑے گا جو اب کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔ ایک طرح سے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی وجہ سے پنجاب حکومت دم توڑ گئی ہے اس فیصلہ سے نئے انتخاب کی راہ مکمل طور پر ہموار ہو گئی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے پاس صوبائی اسمبلی میں اپنی نمبر گیم پوری نہیں ہے۔ انہیں اپنی نمبر گیم پوری کرنے کے لیے ایک بار پھر ان کو چھ اور منحرف اراکین یا اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ جو اب ممکن ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس فیصلہ نے الیکشن کا ماحول بنا دیا ہے محسوس یوں ہو رہا ہے کہ باامر مجبوری اب نئے انتخابات کی طرف جانا ہی پڑے گا حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے یکسر طور پر صورت حال تبدیل کر کے رکھ دی ہے موجودہ حکومت کو بند گلی میں داخل کر لیا گیا ہے ان کو بند گلی میں بند کس نے داخل کیا ہے اور کیوں کیا ہے یہ ایک کھلا راز ہے۔ جس کو جاننے سے لوگ خود ڈرتے ہیں کیونکہ اس کھلے راز پر بات چیت کرنے والے قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں لاکھوں روپے جرمانے کے ساتھ ساتھ جیل یاترہ بھی کرائی جا سکتی ہے اس لیے سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔