اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ایک بزدل جنونی نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ مجھ پر حملے سے چند سیکنڈ پہلے جلسے میں ایک فون کال آئی اور فون اٹھایا تو میری کہنی ڈھال بن گئی۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے میرے خاندان سے اظہار یکجہتی کیا توان کی آنکھوں میں نمی تھی اور دہشت گردی کے ناسور کے باعث بلاول کی ماں بھی شہید ہوئی۔ عمران خان نے مجھے گلدستہ بھیجا جس پر ان کا شکر گزار ہوں او خوشی ہوتی یہ گلدستہ شیریں مزاری، شفقت محمود اور اسد عمر لے کر آتے جبکہ دکھ ہوا گلدستہ لے کر آنے والا شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر حملہ آور کا دفاع کر رہا تھا۔
مزید پڑھیں: ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی کہ نعیم الحق ہاتھ اٹھاتے، دانیال عزیز
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جسم میں گولی یاد دلاتی رہے گی کہ نفرت کے بوئے گئے بیجوں کو سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مل کر اس بارود کو اٹھانا ہو گا جو معاشرے میں پھیل چکا ہے اور ہمارے ملک میں انتہا پسندی کا ناسور ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ انتہا پسندی کے رویے کی بیخ کنی کرے اور پاکستان میں کون مسلم، کون غیر مسلم یہ فیصلہ پاکستان کا آئین اور پارلیمنٹ کرتا ہے کسی کو حق نہیں کہ گلی محلے میں فتویٰ دے۔ کس کو سزا ملنی ہے اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کا قانون اور عدالت کا فیصلہ کرتا ہے۔
وزیرداخلہ نے مزید کہا کہ جیّد علماء کا فتوی ہے کہ جہاد کا حکم صرف ریاست دے سکتی ہے اور جہاد کا فتوی کوئی فرد یا گروہ نہیں دے سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر نشانہ بنایا گیا، نواز شریف
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم سے بچاناہے جس کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ ہے وہ پاکستانی ہے اور ہمیں انتہا پسندی کے رویے کہ خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہے کہ ہمیں پاکستان کو کیسے انتہا پسندی سے بچانا ہے اور اس ملک میں امن قائم کرنا ہے، نفرت کو ختم کرنا ہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں