اسلام آباد : سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کے دور میں صحافیوں پر جو پابندیاں لگائی گئیں ان کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید تھے ۔ فیض حمید کا آج بھی زلمے خلیل زاد سے رابطہ ہے ۔دونوں نے مل کر دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کا نام نہاد امن معاہدہ کرایا تھا۔
سینئر صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں کہا کہ یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ جنرل باجوہ مجھ (حامد میر) سے کیوں ناراض ہوئے اور انہوں نے راہ راست پرلانے کے لئے توہین رسالتؐ کے الزام کا استعمال کیوں کیا ؟ جنرل باجوہ کو میں اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ بریگیڈیئر تھے ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل ایک رات انہوں نے مجھے کہا کہ ہم شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں انہیں بتا دیں کہ نواز شریف کو چھوڑنا ہو گا۔ میں نے لیت ولعل سے کام لیا تو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پھر مجھے مارشل لاء لگانا پڑے گا اور کم از کم پانچ ہزار افراد کو الٹا لٹکا دوں گا۔
اگلے دن میں لاہور پہنچا اور شہباز شریف سے عرض کیا کہ آپ کو کسی بھی قیمت پر نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شہباز صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ میں یہ الفاظ سننے کو تڑپ رہا تھا۔پھر انہوں نے باجوہ اور ان کے دو ساتھیوں کے سامنے بیٹھ کر خود ہی وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا۔
حامد میر کے مطابق ایک رات باجوہ نے مجھے آرمی ہاؤس بلایا تو وہاں سلیم صافی اور ارشاد بھٹی بھی موجود تھے، فرمایا عمران خان کو کہیں کہ نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے جنرل جیلانی کا ذکر نہ کیا کریں۔ میں نے بڑے ادب سے کہا کہ یہ میرا کام نہیں باجوہ نے بہت اصرار کیا لیکن میں نے یہ پیغام نہیں پہنچایا جس پر ناراض ہوگئے۔
عمران خان جب وزیر اعظم بن گئے تو ایک دن بلا کر کہا کہ وزیر اعظم سے کہیں اسد عمر کو وزارت خزانہ اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیں ۔میں نے کہا یہ میرا کام نہیں وہاں ایک اور صحافی دوست موجود تھا اگلے دن اس نے یہ پیغام پہنچا دیا اور خان صاحب نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا دیا ۔
اپریل 2021ء میں ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو باجوہ نے مجھ سمیت دو درجن صحافیوں کو سامنے بٹھا کر کہا کہ ابصار عالم پر حملے کی وجہ ان کی ’’غیر نصابی سرگرمیاں‘‘ تھیں ۔