اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پوائنٹ آف سیلز سے مربوط پہلے درجے کے پرچون فروشوں پر سیلز ٹیکس 15 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی ایف بی آر کی بجٹ تجویز مکمل طور پر مسترد کر دی ہے۔
زید بشیر کی قیادت میں پاکستان ریٹیل بزنس کونسل نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات کے سامنے درخواست پیش کی کہ پی او ایس (POS) سے منسلک ریٹیلرز پر سیلز ٹیکس کو 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد نہ کیا جائے۔
وفد نے سینیٹرز کو بتایا کہ ریٹیل سیکٹر کا صرف 5 فیصد حصہ رجسٹرڈ ہے اور وہ بار بار ہمارے پیچھے آتے ہیں جبکہ 95 فیصد حصہ صفر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ دستاویزی ریٹیل سیکٹر پہلے ہی 29 فیصد انکم ٹیکس، 10 فیصد سپر ٹیکس، 15 فیصد ڈیویڈنڈ ٹیکس، 7 فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ورکرز پارٹیسپیشن فنڈ وغیرہ جو کہ پہلے ہی تقریباً 57 فیصد ہے، ادا کر رہا ہے اور یہ اضافی 3 فیصد ہمیں 60 فیصد تک لے جائے گا جبکہ دوسرے 95 فیصد ریٹیلرز کچھ نہیں دیتے۔
تمام سینیٹرز نے اس نقطہ نظر سے اتفاق کیا اور کہا کہ ایف بی آر کی تجویز کی کوئی منطق نہیں تھی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ موجودہ ٹیکسیشن سسٹم کے تحت قوانین کی پابندی کرنے والے ریٹیلرز پر غیر ضروری بوجھ ڈال دیا گیا ہے، اور منصفانہ ٹیکس ڈھانچے کےلیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جو قوانین کی پابندی کرنے والوں کو انعام دے اور چوری کرنے والوں کو سزا دے۔
پی او ایس سے منسلک کمپنیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو واپس 9 فیصد پر لے جانا جو ریٹیل سیکٹر کے 10 فیصد سے کم ہیں، دوسروں کو بین الاقوامی بہترین عمل کے مطابق یکجا اور دستاویزی بننے کی ترغیب دے گا۔ فی الحال حکومت نے اس کے بالکل برعکس سفارش کی ہے اور پی او ایس سے منسلک ریٹیلرز پر سیلز ٹیکس کو 15 سے 18 فیصد تک بڑھا رہی ہے۔ ہم پہلے ہی دستاویزی سیکٹر کا مارکیٹ شیئر کھو رہے ہیں اور آخری اضافے کے بعد سے اسٹور بند کر رہے ہیں۔