اسلام آباد: وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کے مشورے سے بینچ بنایا۔ اس کے فیصلے کا حال بھی پنجاب انتخابات والے فیصلے جیسے ہوگا۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے کل کی سماعت پر ڈرامائی انداز کے الفاظ استعمال ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا اگر یہ بات میں کہوں تو توہین عدالت کا مرتکب ہوجاؤں۔ مگر یہ بات سپریم کورٹ کا سینیئر ترین جج کررہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سینیئر ترین جج اور نامزد چیف جسٹس نے خلاف قانون تشکیل کردہ بینچ پر اعراض کیا۔ ان کے مطابق اس کے بعد دونوں ججز کو فوری طور پر بینچ سے نکال دیا گیا اور جلدی میں دوسرا سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ پتہ نہیں کس بات کی جلدی ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ پارلیمنٹ ایک قانون کے بارے میں سوچ رہی ہو اور آپ سٹے دے دیں، آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے لیکن جو قانون نہیں بنا اس کا اختیار نہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ دو سینئیر ترین وکلا پٹیشن لائے ہیں۔ انھوں نے ماضی میں اچھا کام کیا اب مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ پہلے زمان پارک میں عمران خان سے ملے پھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملے ان ملاقاتوں میں لارجر بینچ اور فل کورٹ بینچ کے بارے میں بات چیت ہوئی بعد میں یہ ساری پیش رفت ہوئی.
ان کے مطابق کل جب قاضی فائز عیسیٰ نے انکار کیا تو ان کے منھ سے نکلا تو انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ کو پہلے کہہ تھا کہ فُل کورٹ بنا دیں۔ انھوں نے کہا کہ ’بھائی آپ کی یہ بات کہاں پر ہوئی تھی۔‘
وزیر داخلہ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے لیکن اگر ان فیصلوں کے پیچھے یہ عوامل ہوں تو ان کی اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔ عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔
ان کے مطابق پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عمل نہ ہوسکا اور اب وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بار کونسلز، ایسوسی ایشنز نے فل بینچ کی استدعا کی اس پارلیمنٹ نے بھی فل بینچ کی بات کی لیکن نہیں مانا گیا۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے بھی لارجر بینچ کی ڈیمانڈ کی چیف جسٹس نے لارجر بینچ کے بجائے تین رکنی بینچ کا فیصلہ صادر کیا پھر اس فیصلے پر کیا ہوا سب نے دیکھ لیا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو اسے کالعدم قرار دے دیں۔ یہ اسی لیے ہے کہ کوئی دفاعی نظام پر حملہ اور ہو تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا۔
یہ باقاعدہ طور پر دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ انھوں نے کور کمانڈر ہاؤس میں دستاویزات اور چیزوں کو جلایا گیا۔ اس کی تحقیقات آرمی کی ٹیم ہی کرے گی۔
ان کے مطابق انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے۔ کیا ان لوگوں کی انسانی حقوق ہیں، جنھوں نے شہدا کے مجسموں کو توڑا۔ پاکستان کی دفاع پر جنھوں نے حملہ کیا ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔