فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل: وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع

فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل: وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
سورس: File

اسلام آباد: فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پروقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ 

7 رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کے متعلق تمام جوابات آرمی رولز 1954 میں موجود ہیں اور رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں اور ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں۔

جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا۔

فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ شروع میں  آپ نے کہا کہ آپ آرمی ایکٹ کی مخالفت نہیں کر رہے، صرف غیر معمولی حالات میں ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ بتا دیں کون سے غیر معمولی حالات میں سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟ کیا ملٹری کورٹس آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت محدود دائرے میں سویلین کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا سویلینز کا جرم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہے یا نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نےریمارکس دیئے کہ اے ٹی اے میں جرائم آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے بالکل مختلف ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت یہ کہہ سکتی تھی کہ سویلینز ملٹری کورٹ کو نہیں دے رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجسٹریٹ کسی کے مطالبے پر سویلین کی حوالگی نہیں دے سکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سول اور ملٹری عدالتوں کے خلاف تنازع کو وفاقی حکومت حل کر سکتی ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے سوال اٹھایا کہ یہ نہیں سمجھ آتا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسے لگا دیا گیا؟ تنصیبات پر حملہ کرنے پر اے ٹی اے ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔

مصنف کے بارے میں