ہمارے سیاستدانوں میں یہ خیال یا خوش فہمی، عقیدے کی حد تک پختگی اختیار کرچکی ہے کہ تمام مسائل کا حل انہی کی ذات سے وابستہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ انھیں اقتدار اور اختیار تاحیات حاصل رہے۔ سابق صدر فاروق لغاری نے ایک طویل سیاسی زندگی گذاری اور پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے۔ مگر صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ملت پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی مگر وہ کامیابی حاصل نہ ہوئی جس کی بنیاد پر پارٹی قائم کی تھی، اور بعد میں پارٹی کو مسلم لیگ ق میں ضم کرنا پڑا۔ پرویز مشرف پاکستان کے طاقتور ترین حکمرانوں میں شمار کیے جاتے ہیں، اقتدار سے رخصتی کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنائی اور ناکام ہوئے۔ نواز شریف تین بار اقتدار میں آئے اور اب بھی اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں۔آصف علی زرداری کا معاملہ بھی نواز شریف سے مختلف نہیں ہے۔ رہے عمران خان ، تو وہ ابھی ایک بار ہی اقتدار میں آئے ہیں ، وہ کیوں اقتدار کی خواہش کا گلا گھوٹیں؟
پاکستان کی تینوں سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں اور مزید اقتدار کی خواہش بھی رکھتی ہیں۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ تینوں سیاسی جماعتیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اب ان کے پاس وہ کون سا نسخہ کیمیا ہے جسے وہ اپنے اقتدار میں ملک اورعوام کی خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کرسکے اور اب کر گزریں گے؟
پی ڈی ایم کی حکومت کے بارے میں گمان یہ کیا جارہا تھا کہ اس اتحاد کی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز تجربہ کار ہیں اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کو دنوں میں نہیں تو چند ماہ میں ضرورحل کرلیں گی۔ خاص کر کہ مسلم لیگ نواز جسے کاروباری طبقے کی حمایت حاصل ہے اور وہ نمائندہ جماعت بھی اسی طبقے کی ہے۔ مگر افسوس کہ ابھی یہ حکومت عوام کو پچھلی حکومت کے اقدامات کا رونا سنا رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے اقدامات سے تومحسوس یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے لیے پوسٹ آفس کا کردار ادا کررہاہے۔ ابھی تک حکومت نے جو اقدامات بھی اُٹھائے ہیں وہ انتظامی اور عارضی نوعیت کے ہیں۔ کوئی بھی پالیسی یا پروگرام ایسا نہیں دیا گیا جو ملک کی معیشت کو سنبھالا دے
سکے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور سٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے۔ ٹھوس منصوبہ بندی کے فقدان ہی کا سبب ہے کہ کوئی ملک بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ معروف صنعتکار میاں منشاء نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وزیر اعظم شہاز شریف کی قیادت میں پاکستانی وفد سے ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان نے کہا کہ یہ آپ کیا ہر دوسرے روز امداد کے لیے آجاتے ہیں، کوئی ٹھوس منصوبہ بتائیں تو ہم آپ کے ملک میں تیس چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میاں منشاء ہی نے بتایا کہ بھارت کے ایک بڑے بزنس مین مکیش امبانی کی کمپنی میں ایم بی ایس نے ذاتی سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، اور ہم ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے آئی ایم ایف کے آگے بچھے جارہے ہیں۔جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں اس وقت تک وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے پھر دو دن دے رہے ہیں۔ اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں سعودی عرب کی کاروباری شخصیات کے اعزاز میں منعقد ایک تقریب میں ان شخصیات کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کساد بازاری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد عالمی معیشت نے سنبھلنا شروع ہی کیا تھا کہ روس اور یوکرائن جنگ نے دنیا کو ایک اور عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ نیٹو کے سربراہ اسٹولن برگ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے منفی اثرات نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور یہ جنگ برسوں جاری رہ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر یہ جنگ جاری رہی تو توانائی اور خوراک کے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر ان تمام خطرات کے ادراک کے باوجود نیٹو ممالک نے روس اور یوکرائن جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا کردار اد ا کرنے کے بجائے اس جنگ کو مزید ایندھن فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔امریکہ کی سرپرستی میں نیٹو ممالک یوکرائن کو جدید ہتھیاروں کی صورت میں مدد کررہے ہیں۔ امریکی بلاک میں شامل ممالک کے لیے روس سے گیس، تیل اور دیگر اشیاء در آمد نہیں کرسکتے ہیں۔ برطانیہ کے آرمی چیف نے ا پنی فوج کو روس پر حملے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ محسوس یہ ہی ہوتا ہے کہ عالمی جاگیرداروں نے پھر دنیا کواپنی خواہشات کا ایندھن بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی قومی اور بین الاقوامی منظر کی۔ مگر ہمارے یہاں آنے والے خطرات کے آگے بند باندھنے کے بجائے، مبینہ خط، فرح گوگی اور نیب قوانین میں ترامیم جیسے مسائل زیر بحث ہیں۔ ملک کا غریب طبقہ مہنگائی کا بدترین شکار ہے، جس سے سماجی مسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ مگر حکومت اور اپوزیشن الزامات اور سیاسی سکورنگ میں مصروف ہیں۔ عالمی صورتحال کے نتیجے میں جو مسائل درپیش ہیں وہ اپنی جگہ مگر ہمارے یہاں اقتدار اور اختیار پر جو طبقہ قابض ہے ، وہ عوام میں سے ہے ہی نہیں۔ ادھرعوام مسائل کی بنیاد پر متحد ہونے کے بجائے زبان، فرقے، اور برادری کے نام پر تقسیم در تقسیم ہے۔ ایسے میںبے داغ سبزے کی بہار کیسے ممکن ہے؟