افغان فورسز کے فضائی حملے، 64 طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

افغان فورسز کے فضائی حملے، 64 طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ
کیپشن: افغان فورسز کے فضائی حملے، 64 طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ
سورس: فائل فوٹو

کابل: افغان فورسز کی جانب سے دو صوبوں میں فضائی حملوں کے نتیجے میں 64 طالبان جنگجوؤں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

افغان وزارت دفاع کےمطابق صوبہ ہرات کے ضلع پشتون زرغون میں گذشتہ رات کیےگئے فضائی حملےمیں 50 طالبان ہلاک ہوئے اور حملے میں دھماکا خیز مواد سے لدی کار سمیت 4گاڑیاں، 10موٹرسائیکل اور بڑی تعداد میں اسلحہ بارود بھی تباہ کیاگیا۔

اس کے علاوہ صوبے سمنگان کے ضلع فیروز نخچیرا میں گذشتہ رات ہوئے فضائی حملے میں 14طالبان ہلاک ہوئے جب کہ طالبان کی ایک پناہ گاہ اور اسلحہ بھی تباہ کیا گیا۔

دوسری جانب عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق قندوز شہر سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر افغانستان کے شمال میں شیر خان بندر پر قبضہ امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے طالبان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

افغان طالبان نے یہ کامیابی اس وقت حاصل کی ہے جب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے واضح طور پر کہا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور انہیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی رفتار سست کی جا سکتی ہے۔

قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن خالدین حکیمی نے عالمی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ آج صبح ڈیڑھ گھنٹہ لڑائی کے بعد طالبان نے شیر خان بندرگاہ اور تاجکستان کے ساتھ واقع قصبے اور تمام سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔

فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ ہمیں تمام چوکیاں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ہمارے کچھ فوجی سرحد عبور کر کے تاجکستان چلے گئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صبح تک سیکڑوں کی تعداد میں طالبان جنگجو ہر جگہ موجود تھے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی تصدیق کی ہے کہ طالبان نے دریائے پاینج کے پار گزرگاہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مجاہدین شیر خان بندر اور قندوز میں تاجکستان سے ملحقہ سرحدی گزر گاہوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

صوبائی کونسل کے ایک اور رکن عمرالدین ولی نے بتایا ہے  کہ پیر کی شب سے اس علاقے سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

اس گزرگاہ پر 700 میٹر طویل پل موجود ہے اور امریکہ کے تعاون سے تعمیر کیا گیا یہ پل 2007 میں کھولا گیا تھا جس کا مقصد وسط ایشیائی ہمسایہ ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔