پاکستانی سیاست کا کارکردگی یا سروس ڈلیوری سے اتنا ہی تعلق سے جتنا پاکستان کے اینٹی کرپشن کے محکمے کا ملک سے رشوت اور بد عنوانی کے خاتمے سے ہے۔ ہماری قومی سیاست میں شعلہ بیانی کے مارکس سب سے زیادہ ہیں بس ایک دفعہ آگ لگا دو اور پھر تماشا دیکھو اور اپنی ریٹنگ بڑھاؤ۔ تاریخی طور پر روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ لیکن 50 سال پرانی سیاست میں پھر بھی کچھ نہ کچھ میرٹ تھا۔
ہماری آج کی سیاسی شریعت میں اہل سیاست کا وہی شیوہ ہے جو آزادی سے قبل شاعر مشرق کے دور میںاس وقت کے ملا اور صوفی کا تھا جن کے بارے میں علامہ اقبالؒ کو مرحوم کا مشہور قطعہ ہے کہ
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
وہ مرد مجاہد نظر آتا مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
حالیہ ضمنی الیکشن ایک ایسے نازک دور میں منعقد ہوا جس میں پاکستا ن کے اندر اور باہر حتیٰ کہ آئی ایم ایف کی اعلیٰ ترین سطح پر بڑی تشویشناک خبریں ہیں کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں ہے جن کی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا سنگین خطرہ ہے۔ یہ پوزیشن لفظ ایمر جنسی سے بھی ایک درجہ آگے کی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہرہے کہ ایسے حالات میں ضمنی انتخابات میں ایک ایسی سیاسی پارٹی نے لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی جس نے پوری انتخابی مہم میں معیشت پر کوئی پروگرام دینا تو دور کی بات ہے اس کو اپنی انتخابی مہم میں شامل ہی نہیں کیا۔ گویا تحریک انصاف نے معاشی کشمکش کی اس جنگ میں ایک گولی چلائے بغیر فتح حاصل کرلی ان کا انتخابی بیانیہ جو کچھ عرصہ پہلے تک امریکی سازش کو اوڑھنا بچھونا قرار دیتارہا مگر عین انتخابی مہم کے نقطہ عروج پر ان کے پاس صرف ایک ہی بات تھی کہ ہمارے مخالف چور ہیں انہیں ووٹ نہ دیں بظاہر لگتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی طرح وہ مخالفین کو زچ کرنے کی بنا پر ہی جیت گئے۔
لیکن معاملے کی تہہ میں جائیں تو پی ڈی ایم کی بھاری شکست کی وجہ کچھ اور ہے انہوں نے مہنگائی کے نام پر اتحاد کیا تھا اور مہنگائی کے خاتمے اور نجات کی خاطر عمران خان کے خلاف عدم اعتمادلے کر آئے تھے مگر جب ان کی حکومت کرنے کی باری آئی تو شہباز شریف کی 30 سالہ دیو مالائی مثالی ایڈمنسٹریشن کا بت 3 مہینوں میں پاش پاش ہو گیا اور اگر ضمنی الیکشن ہارنے کی ن لیگ کی صرف
ایک وجہ بتانا مقصود ہو تو وہ مہنگا ئی ہے ان کے آتے ہی پٹرول بجلی گیس اور خوراک کی قیمتوں کو آگ لگا دی گئی۔ الیکشن سے 2 دن پہلے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔
مگر مہنگائی واحد وجہ نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے منحرفین کو ہر حلقے میں مقامی ن لیگی قیادت کو پوچھے یا اعتماد میں لیے بغیر جو ٹکٹ جاری کئے گئے اس سے ایک طرف تو عوام میں منفی تاثر ابھرا اور دوسری طرف مقامی ر ہنماؤں نے اس رنجش پر منحرفین کی حمایت نہیں کی کیونکہ منحرفین سارے وہ تھے جنہوں نے 2018ء میں مقامی ن لیگی امیدوار کو ہرا یا تھا کارکن بھی مقامی ن لیگی عبادت کے ساتھ تھے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان TLP نے ہر حلقے میں جو ووٹ حاصل کئے وہ در اصل ن لیگ کے ووٹ بینک سے منفی ہوئے اگر ان حلقوں میں ن لیگ اور TLP کے ووٹ جمع کریں تو آدھی سے زیادہ سٹس تحریک انصاف نے ہار جانی تھیں۔ یہ اب پتہ نہیں کہاں سے فیصلہ ہوا کہ ن لیگ کو چھرا گھونپنے کے لیے TLP کو اتارا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی پی پی اور فضل الرحمن جیسے اتحادی پنجاب کے ضمنی الیکشن سے عملاً لاتعلق رہے تاکہ ن لیگ کے قدوقامت کو مناسب حد سے اونچا نہ ہونے دی جائے۔
ن لیگ کی ناکامی کی ایک اور اہم وجہ موروثی سیاست کو فروغ دینے کی خواہش تھی جس کے تحت شہباز شریف نے صوبائی سینئر قیادت کے ہوتے ہوئے اپنے فرزند ارجمند حمزہ شہباز کو پنجاب کی حکمرانی کے لیے سب سے قابل سمجھا جسے عوام کے پسند نہیں کیا۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں فوری طور پر سرکاری وفد کے ساتھ عمرہ کرنے جانا غیر ملکی دوروں کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف کے بیٹوں کا جن پر پاکستان میں مقدمات میں انہیں سرکاری وفد میں شامل کرنا بھی عوامی غصے کا باعث بنا۔ پھر نیب قوانین میں تیز رفتار تبدیلیاں اور نیب افسران میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ بھی ایک وجہ بنی۔ بہر حال ن لیگ کی گورننس اور قیمتوں میں کمی میں ناکامی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔
تحر یک انصاف کے ضمنی انتخابات سے قبل حکومتی دھاندلی کا جو پراپیگنڈا شروع کر رکھا تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ الیکشن کمیشن ، بیورو کریسی ، ریاستی ادارے اگر جاندار ہوتے تو اپوزیشن کبھی اتنی سیٹیں حاصل نہ کر پاتی بلکہ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حکومت نے ان انتخا بات میں دھاندلی کی کوشش نہیں کی۔ مگر الیکشن کے بعد بھی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف عمران خان کی جنگی یلغار میں کوئی کمی نہیں آئی جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے فارن فنڈنگ پر عمران خان اور پارٹی کے خلاف جو فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اپوزیشن اس سے خاصی پریشان ہے کیونکہ وہ کسی ان پر ثابت ہو چکا ہے اب صرف سزا کا تعین باقی ہے وہ بھی ہو چکا ہے صرف یہ ہے کہ فیصلہ سنائے جانے کا انتظار ہے اور اپوزیشن کو کسی خیر کی امید نہیں ہے۔ یہ فیصلہ پورے سیاسی منظر نامے کا نقشہ تبدیل کر سکتا ہے۔ عمران خان اس وقت جو زبان چیف الیکشن کمشنر کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس پر ان پر contempt کا مقدمہ بڑی آسانی سے بن سکتا ہے مگر چیف الیکشن کمشنر نے خاصے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے شاید وہ اس لئے نظرانداز کر رہے ہیں کہ آگے محفوظ فیصلے کو عوام میں انتقامی کارروائی نہ سمجھ لیا جائے ورنہ وہ عمران خان کو طلب کر سکتے ہیں کہ وہ جو باتیں کرتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر مریم نواز کے پاؤں میں بیٹھا ہوا ہے اس کا ثبوت لائیں یا معافی مانگیں۔
ن لیگی رہنما میاں جاوید لطیف جن کو نواز شریف کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو عمران خان کی گرفتاری سے روک کر رکھا گیا ہے اس سے کئی اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ۔ ضمنی الیکشن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرن آؤٹ بہت زیا دہ سامنے آیا ہے اتنا ٹرن آؤٹ تو ساؤ تھ پنجاب میں عام انتخابات میں بھی کبھی نظر نہیں آیا۔ دستاویزی ٹرن آؤٹ حقیقی ٹرن آؤٹ سے بھی زیادہ ہے مگر اس موضوع پر میڈیا میں کسی لیول پر بحث نہیں ہوئی دانستہ یا نادانستہ۔
اس الیکشن کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ عوام نے منحرفین جن کو عرف عام میں لوٹا کہا جاتا ہے، سپورٹ نہیں کیا اب ممبران اسمبلی سوچ سمجھ کر پارٹی تبدیل کیا کریں گے۔ جمہوریت کی خرابی یہ ہے کہ اس میں ایسی ایسی سودے بازی سامنے آتی ہے کہ جمہوریت کی جڑیں اکھڑ جاتی ہیں جیسے تحریک انصاف پنجاب میں 177 نشستوں کے باوجود 10 سیٹوں والے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے پر مجبور ہے۔
عمران خان اب بھی فوری انتخابات کے مطالبے پر قائم ہیں مگر 22 جولائی کو وہ پہلے پرویز الٰہی کو منتخب کرالیں ہو سکتا ہے کہ اس کھیل کی آخری بال ابھی باقی ہو۔ اس کے بعد وہ پنجاب اور کے پی کے حکومتیں ختم کر کے وفاق کو نئے انتخابات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔