علامہ اقبالؒ کی نظموں اورغزلوں میں قرآن پاک کے اثرات کے واضح اشارے پائے جاتے ہیں۔خصوصاً اسرار خودی اور رموز بے خودی کی اشاعت کے بعد تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ اقبالؒ دیگر شعرا اور ادباء کی طرح شعوری طور پر سیرت النبیؐ یا قرآن پاک سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ قرآن پاک ان کے تحت الشعور میں جذب ہوگیا۔اس کے بعد اقبالؒ کی زبان سے قرآن کی ترجمانی ہونے لگی۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست منعقدہ 20جولائی میں علامہ کاشف نورنے اپنے خطاب میںبتایاکہ اقبالؒ کی فکرجامعیت اور ہمہ گیریت سے مستعارہے۔انہوں نے دوقسم کی تہذیبوں کا تذکرہ کیا،پہلی انسان مرکزتہذیب اوردوسری خدامرکزتہذی۔ مشرق اورمغرب کے درمیان تہذیبی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ دورہ یورپ کے بعد اقبالؒ کافکری وجود قرآن مجیدکے اندرکہیں گم ہوگیا۔ احساس زیاں کاتقاضاہے دورغلامی کے جملہ نظام ہائے زندگی کوبدل کرقرآن و سنت کے سانچے میں تہذیب نوکی جائے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقبالؒ کے شعروں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ قرآن پاک، حدیث مبارکہ، سنت نبویؐ، صحابہ کرامؓ اور تاریخ اسلام کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ شاید ہی کوئی نظم یا غزل ایسی ہو جس میں ان عنوانات پر شعر نہ کہے گئے ہوں۔ اقبالؒ کی شاعری میں موجود خیالات کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے اس کے بعد ان کے کلام پراحادیث مبارکہ، سیرت النبیؐ، صحابہ کرامؓ،
بزرگانِ دین اور مسلم و غیر مسلم ادباء و شعراء کے اثرات کچھ حد تک پائے جاتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کی فکر کے اس پہلو کی جانب پہلی بار ابوالاعلیٰ مودودی نے توجہ دی، انھوں نے اس موضوع پر ’’حیات اقبالؒ کا ایک سبق‘‘کے عنوان سے مضمون لکھا جو1938ء کے مجلہ جوہر اقبالؒ نمبر میں شائع ہوا۔ گویا اس مضمون کو اس لحاظ سے اولیت کا درجہ حاصل ہے کہ اس میں اقبالؒ کی فکر کے ایک نئے پہلو کو سامنے لایا گیا جو سب سے جدا اور منفرد مقام کا حامل ہے۔اقبالؒ نے مشرقی علوم سے بھی استفادہ کیا اور مغربی علوم سے بھی۔دونوں علوم پر ان کی دسترس رہی۔وہ فلسفے کے بھی امام ہیں اور شاعری و نثر میں بھی جداگانہ مقام و مرتبہ رکھتے ہیں لیکن ان کے تمام فلسفیانہ افکار، شاعری اور نثر میں کہیں نہ کہیں سے قرآن مجید سے استفادہ ضرور ہے۔اقبالؒ زندگی کے ہر پہلو میں قرآن پاک سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو بار بار تنبیہ کرتے ہیں کہ مسلمان جیسی زندگی کسی طور قرآن پاک کے دکھائے گئے راستے سے ہٹ کر گزارنا ممکن نہیں ہے۔
اقبالؒ کے کلام میں بلاغت و فصاحت اور ایجاز و اختصار کے اعلیٰ نمونے جو ملتے ہیں وہ قرآن کی ہی دین ہے اور ایسا ہو بھی کیوں نہیں اس لیے کہ ان کی پرورش و پرداخت ہی خالص اسلامی اورقرآنی ماحول میں ہوئی۔اقبالؒ کو قرآن پاک کا ذوق و شوق اوائل عمری سے ہی تھااور اسی قرآن کو اپنے اور اس کے معانی و مفاہیم میں غو رو فکر کے ذریعہ ہی اتنے بڑے فلسفی بنے کہ مشرق و مغرب میں آج بھی ان کے فلسفہ کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو شاعر مشرق کہاجاتاہے مگر ان کا کلام اور فلسفہ اس مقام پر فائز ہے کہ اسے مشرق و مغرب میں قید نہیں کیا جا سکتا ؛البتہ چوں کہ اقبالؒ مسلمان تھے اور اسلامی افکار وعلوم کے ماہر بھی تھے اور سب سے زیادہ پسماندگی اور کمزوری مسلمانوں میں محسوس کر رہے تھے تو وہ بار بار قوم کو مختلف انداز سے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کے نزدیک قوم کو سربلند اور کامیابی و کامرانی سے سرفراز کرنے والی چیز صرف اور صرف قرآن پاک ہے اس لیے انہوں نے متعدد مقامات پر مختلف پیرایے میں قرآن کو اپنانے کی دعوت دی ،دیکھیے اس شعر میں مسلمانوں کو اس طر ح سمجھا رہے ہیں جیسے کوئی والد اپنے معصو م لخت جگر کو نصیحت کرتا ہے
قر آن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
علامہ اقبالؒ کی تربیت وتعلیم اور پرورش بہت ہی پاکیزہ اور قرآنی ماحول میں ہوئی تھی ۔ان کے والد اعلیٰ درجہ کے متقی انسان تھے خود اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے کہ قرآن کی تلاوت اس طرح کرو کہ جیسے تم پر نازل ہو رہاہے ۔اس ماحول میں اقبالؒ نے پرورش و پرداخت کی وجہ سے اپنے اندر قرآن کو بسا لیا اور تمام مشکلات کا حل قرآن میں ہی تلاش کرتے رہے اور قرآنی افکار کی ترجمانی میں پوری زندگی صرف کر دی۔ ان کے اردو اور فارسی دونوں کلام میں وافر حصہ قرآنی آیات کے تراجم کا ہے اور قرآن میں ہی غوطہ زنی کی وجہ سے ان کے کلام میں ایسی خوبصورتی پیدا ہوئی ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآنی افکار میں غوطہ لگانے اور اس کی ترجمانی میں صرف کردی۔اللہ حضرت علامہ کی مغفرت فرمائے ،ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت کرے اور امت مسلمہ کو ان کے پیغامات سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔( آمین)