کابل: طالبان کی پورے افغانستان میں پیش قدمی جاری ہے۔ طالبان جنگجوئوں نے صوبہ ہلمند کے دو اضلاع پر کنڑول حاصل کر لیا ہے۔ طالبان کی جانب سے بڑے پیمانے پر اسلحہ، گاڑیاں اور گولہ بارود قبضےمیں لینے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوج نے طالبان کیخلاف فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ ترجمان پینٹاگون جان کربی کا کہنا ہے کہ افغان فوج کی مدد کے لیے مزید حملے بھی جاری رکھیں گے۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ طالبان افغانستان کے 400 سے زائد اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں۔ افغانستان سے انخلا 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ 31 اگست تک ہر حال میں مکمل کر لیں گے۔
ادھر افغانستان کے سکیورٹی اداروں نے طالبان کیخلاف جنگی حکمت عملی پر نظر ثانی شروع کر دی ہے۔ سیکیورٹی حکام انفراسٹرکچر کی حفاظت اور سرحدی راہداریوں پر مامور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لیکن اسے سیاسی طور پر ایک خطرناک حکمت عملی سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے اگر یہ غلطی کی تو افغانستان کے دیگر علاقے بھی طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے لیکن حکومت بضد ہے کہ فوج کو پورے ملک میں پھیلانے کے بجائے کچھ علاقوں تک محدود کرنا چاہیے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ طالبان نصف سے زیادہ مرکزی اضلاع کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جبکہ امریکی انٹیلیجنس نے اندازہ لگایا ہے کہ افغان حکومت کا تختہ چھ مہینے میں الٹ سکتا ہے۔
افغان حکومت کے ایک عہدیدار نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ فوج کی تنظیم نو سے اہم علاقوں پر کنٹرول قائم رکھنے اور انفراسٹرکچر کا دفاع کرنے میں مدد ملے گی جن میں انڈیا کی مدد سے تعمیر کیا گیا ڈیم اور دیگر شاہراہیں شامل ہیں۔
تاہم صرف اہم مقامات کے دفاع پر فوج مرکوز کرنے سے دیگر علاقوں کے غیر محفوظ ہونے کا خدشہ ہے، وہاں کے رہائشیوں کو یہ پیغام جائے گا کہ جیسے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
افغان عہدیدار نے سوال اٹھایا کہ ایسے حالات میں جب طالبان نے کئی اضلاع کا قبضہ حاصل کر لیا ہے، دباؤ کا شکار عوام کو یہ پیغام کیسے دیا کیا جا سکتا ہے کہ فوج صرف اہم مقامات کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ سے جن علاقوں سے افغان فوج نکلے گی وہاں کم از کم کچھ عرصے کے لیے طالبان کا تسلط قائم ہو جائے گا۔
امریکی چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ افغان فوج کی نئی حکمت عملی کے تحت مرکزی اضلاع کا کنٹرول ترک کرنا پڑے گا تاکہ دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں کو طالبان کے قبضے سے محفوظ کیا جا سکے۔
جنرل مارک ملی نے کہا کہ طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضے کا امکان ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور منظر نامہ بھی ترتیب پا سکتا ہے، تاہم میرے خیال میں ’اینڈ گیم‘ ابھی تک نہیں لکھی گئی۔‘