اسلام آباد: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی مدت کم کر کے 4سال کرنے کی اور وزیر اعظم کی مدت صرف دو بار ہونے کی تجویز دے دی۔
وزارت منصوبہ بندی کے تھنک ٹینک پائیڈ نے ملک کے سیاسی وسماجی افق کے لیےمنشور جاری کر دیا۔ پائیڈ کے مطابق ترقیاتی فنڈز پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت استعمال ہونے چاہیں، پارلیمنٹ کے کسی ایک رکن کے ذریعے نہیں۔
پائیڈ نے اپنی تجویز میں کہا کہپارلیمنٹیرینز کے لیے مدت اور خاندانی حدود متعارف کرائی جائیں، پارلیمنٹ میں کابینہ کے اراکین کو 8 سے 10 تک محدود کریں، اور کابینہ کے اراکین کی کل تعداد 25 سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے اور ہرسال مختلف سطح پر الیکشن سال ہوناچاہئے، سینٹ الیکشن براہ راست ہوں، مزید یہ کہ ہمیں ریزرو سیٹوں کے لیے نامزدگی کے موجودہ طریقہ کار کو ختم کرنا چاہیے اور ان کو عام انتخابات میں لڑنے دینا چاہیے۔
پائیڈ کی جانب سے کہا گیا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ موجودہ انتخابی انتظامات پر نظر ثانی کی جائے جس میں تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے کا عبوری سیٹ اپ شامل ہے۔ عبوری حکومت کے اس طرز عمل کو ختم کیا جائے اور تین ہفتوں کے اندر آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کرائے جائیں۔
پائیڈ نے کہا کہ امریکی طرز پر جہاں کانگرس کے انتخابات ہر دوسال بعد اور صدارتی انتخابات چار سال بعد ہوتے ہیں۔ مزید براں، الیکشن کے میکنزم کو تبدیل کیا جانا چاہیے جہاں بعض سطح پر حکومتوں کے الیکشن ہر سال ہوتے ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف سطح پر ہرسال الیکشن سال ہونا چاہیے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی آزادی کو مکمل طور پر یقینی بنایا جائے۔ الیکشن کمیشن کو کسی کی مداخلت کے بغیر انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ ش الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی مہم کے اخراجات کو معقول بنانے اور لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
پائیڈ نے اپنی رپورٹ میں پلاننگ کمیشن کو ختم کرنے کی بھی تجویز دی اور نیا گروتھ کمیشن قائم کرنے کی تجویز دے دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان عالمی معیشت میں زیادہ تر ایمرجنسی وارڈ میں رہا اور تاریخ میں ز یادہ تر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا پڑا، بلاشبہ پاکستان کے معیشت ، پالیسی سازی ، گورننس اور کاروباری نظام میں بہت گہرے اور اہم معاملات ہیں جنہوں نے اہم آئی ایم ایف کا عادی بنا دیا ہے۔
پائیڈ نے کہا کہ پارلیمینٹرینز کی توجہ قانون سازی کےذریعے پالیسی اور فیصلہ سازی پر ہونی چاہیے ، قانون ساز صرف قانون سازی کریں ، ان کی ترقیاتی منصوبوں اور ایگزیکٹو کے فیصلوں میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ، 10سے زیادہ قانون سازوں کو ایگزیکٹو پوزیشن پر نہیں ہونا چاہیے۔