جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے شاید ہی کوئی عشرہ ہوجس میں عوام نے مہنگائی بارے کوئی خبر نہ سنی ہو پٹرول کی قیمت بھی ہر پندرہ روز بعد ستم ڈھاتی ہے۔ بجلی کے بل میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اسی طرح روزمرہ ضروریات کی قیمتیں بھی ہر روز بڑھ رہی ہیں خاص کر منی بجٹ کے بعد تو اس میں مزید تیزی آ چکی ہے کچھ اصلی اور کچھ تاجر برادری کی خود ساختہ مہنگائی عوام پر ستم ڈھا رہی ہے حکومتی وزراء اور وزیر اعظم صاحب اس پر ایکشن لینے اور شرمندہ ہونے کے بجائے ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور گزشتہ حکومتیں چور تھیں ۔خود کیا کر رہے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیںکرتے شائد اس حکومت کی کارکردگی ہی ہے اب لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ چور ہی اچھے تھے ۔ابھی گزشتہ دنوں ایک محفل میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا جہاں نیو یارک کے ایک سیاستدان کی مثال دی جارہی تھی کہ وہ کرپٹ ضرور تھا لیکن آج دنیا کو اس کی کرپشن نہیں یاد صرف اسکے ترقیاتی کام ہیں جو آج تک نیویارک کے شہریوں کے کام آ رہے ہیں ۔یعنی وہ لوگ جو کل تک تبدیلی کے حامی تھے یہ ان کی آج کی سوچ ہے کیونکہ وہ اس نظام سے تنگ آ چکے ہیں نظام کہنا شاید ٹھیک نہ ہو وہ تبدیلی سے تنگ آ چکے ہیں اور اس حد تک بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کوئی آ جائے اس تبدیلی سے جان چھوٹ جائے۔
پیٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں بڑھا ئے جانے کے بعد ملک بھر میں ایک عجیب طرح کی بے چینی پیدا ہو گئی ہے ٹرانسپورٹ کر ایوں میں دوبارہ اضافہ کا امکان بڑھ چکا ہے دوسری طرف حکومت نے عوام کو ریلیف کیلئے جلد ایک پیکج کی نوید توسنائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ عوام کو حکومت کیخلاف اکسانے کی سازش نا کام ہوگی۔ موجودہ حکومت یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ عوامی مسائل کو پی ٹی آئی سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔تو ا نائی کے بحران ، غربت ، مہنگائی اور بیروز گاری کے خاتمے کیلئے اقدا مات کر رہے ہیںان کے حالیہ بیان سے لگتا ہے کہ انہیں ان ساری باتوں کا ادراک ابھی بھی نہیں ہو سکا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی سستے بازاروں اور یو ٹیلٹی سٹورز سے بھی اشیائے خور و نوش خریدنے کی سکت سے محروم ہوچکا ہے مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روز گاری کے عفر یت نے بھی عام آدمی کا عرصہ حیات تنگ کرچکا ہے حکمرانوں نے عوام کو دیوار کیساتھ لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس صورتحال میں صحیح معنوں میں کوئی عوامی لیڈر میدان میں ہو تا تو حکومت دس دن اسکے ایجی ٹیشن کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی تھی کیو نکہ پہلے عام آدمی سڑکوں پر آ کر حکمرانوں کو کوسنے دے رہا ہے اب صنعت کار، تاجر برادری اور دیگر طبقات زندگی کے لوگ بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ مختلف شعبوں کے سرکاری ملازمین پہلے ہی سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آ رہے ہیں جب ملازمین کی تنخواہوں میں ان کے گھر کا بجٹ پورا نہیں ہو گا اور یو ٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور اپنے بچوں کی تعلیم و صحت کے اخرا جات پورے کرنا ان کیلئے نا ممکن ہو جائیگا تو پھر ان کے پاس احتجاج کے سوا کیا راستہ بچے گا اس لئے آنے والے حالات حکمران طبقات کیلئے قطعاً ساز گار نظر نہیں آ رہے اورر عوام کے ذہنوں میں جو لاوا پک رہا ہے وہ خطر ناک صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں حکومت کی نالائقیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں وہاں ہماری اپوزیشن بھی نالائق ہے ۔اپوزیشن بھی دراصل عوام کے لئے ہی کام کرتی ہے اگر اپوزیشن درست طریقے سے کام کرے تو حکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھاتے ہوئے سو بار سوچے گی لیکن اگر فرینڈلی اپوزیشن ہو تو حکومت باآسانی مفاد عامہ کے خلاف فیصلے کرتی رہ جاتی ہے ۔اپوزیشن میں اگر دیکھا جائے تو واقعی اس وقت کوئی ایسا لیڈر نہیں جس کا قد کاٹھ عمران خان کے برابر ہو اگر مسلم لیگ ن کی طرف دیکھا جائے تو ان کا لیڈر ویسے ہی ملک چھوڑ کر برطانیہ جا چکا ہے یقینا وہ کسی ڈیل کے تحت ہی گیا ہو گا اور جب اسے یقین ہو گا کہ اسے دوبارہ حکومت ملنے کی امید ہے تو واپس آ جائے گا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ یہاں رہ کر موجودہ حکومت کا مقابلہ کرتے، ہو سکتا ہے کہ نواز شریف یہاں ہوتے تو حکومت عوامی مفاد کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے سوچتی لیکن اب اسے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ جو اپوزیشن کے باقی لیڈر حضرات ہیں وہ صرف رات کو ٹی وی پر بیان دے کر اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بھی عوام کا کوئی خاص خیال نہیںہے اس لئے وہ صرف عوام کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔اور نجی محفلوں میں اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ جب بھی مشکل وقت ہوتا ہے مسلم لیگ ن کی قیادت ملک سے باہر بھاگ جاتی ہے ۔چاہے وہ مشرف کا دور حکومت ہو یا عمران خان کا اور جب کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتی ہے ۔اپوزیشن کو بھی ذوالفقار علی بھٹو سے سبق سیکھنا ہو گا اگر وہ چاہتے تو اپنی جان بچاکر کسی بھی ملک جا سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور ملک کو نہ چھوڑا جس کے نتیجے میں انھیں تختہ دار تک جانا پڑا ۔کیونکہ وہ تاریخ میں اپنی موت نہیں چاہتے تھے۔لیکن آج کے اپوزیشن لیڈرز شاید تاریخ میں زندہ نہیں رہنا چاہتے تاریخ انھیں بھگوڑے کے نام سے یاد رکھے گی اگر انھوں نے اپنے طریقے نہ بدلے۔
دوسری طرف اگر گوگل پہ سب سے نالائق حکمران کو تلاش کیا جائے تو 'دنیا کے سب سے نالائق وزیر اعظم' کی تلاش پر، مودی کی تصاویر کسی بھی دوسرے وزیر اعظم کے مقابلے میں کئی بار اور زیادہ بار دکھائی دیتی ہیں۔
مودی کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ اور یہاں تک کہ سنگاپور کے پہلے وزیر اعظم لی کوان یو جیسے سابق رہنما بھی شامل ہیں۔خطرہ ہے کہ اگر حکومت اسی طرح کام کرتی رہی تو ہمارے وزیر اعظم کا نام بھی کہیں اس فہرست میں نہ آ جائے۔