کسی بھی حکومت کو اپنے منشور پر عملدرآمد کیلئے مرضی کی با اعتماد انتظامی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے،ترقی یافتہ،ترقی پزیر یا پسماندہ ملک کی تفریق کے بغیر جب بھی کوئی نئی حکومت وجود پاتی ہے تو انتظامی ٹیم کی تشکیل کیلئے اس کے پاس کافی سے زیادہ جواز ہوتا ہے،پنجاب میں بزدار دور تبادلوں کے لئے بڑا مشہور ہوا ،صبح تبادلہ دوپہر کو منسوخ ،رات کسی تیسری جگہ تعیناتی،بعض افسر ابھی نئی تعیناتی پر رپورٹ کرتے اور چارج بھی نہ لینے پاتے تھے کہ پھر تبدیلی کا پروانہ آجاتا،یوں کم و بیش ساڑھے تین سال عثمان بزدار اپنی با اعتماد ٹیم سیلیکٹ نہ کر سکے اگر چہ ان کے دور میں ریکارڈ ساڑھے پانچ ہزار افسروں کو الٹ پلٹ کیا گیا،بزدار کو تلاش تھی شریف دشمن بیوروکریسی کی،نتیجے میں انتظامی افسروں میں گروہ بندی نے جنم لیا،بیوروکریٹس بھی پناہ کیلئے کوئی دامن تلاش کرنے لگے،جس کی جہاں تک رسائی تھی اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہا،بزدار دور میں انتظامی افسروں کی اٹھا پٹخ شاید ریکارڈ ہوتی اور ورلڈ گینیز بک میں جگہ پاتی مگر پنجاب کے موجودہ نگران حکمرانوں نے سالوں مہینوں میں نہیں ہفتوں اور دنوں میں یہ ریکارڈ توڑ ڈالا ،اب تک ساڑھے سات ہزارافسروں،اہلکاروں کو تبادلوں کی سولی چڑھایا گیا، سیکرٹری لیول پر چیف سیکرٹری نے مداخلت کر کے کافی اچھے افسران لگوا بھی لئے اور بچا بھی لئے مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، جس کو جو پوسٹ پسند آئی لے اڑا مگر جن کی کوئی سفارش یا زور نہیں تھا، کھڈے لائن پوسٹوں کے حقدار ٹھہرے، بقول میاں محمد بخش”لسے دا کیہ زور محمد نس جانا یا رونا“
ایک اچھے اور محنتی افسراحسان بھٹہ کو پھر تبدیل کر دیا گیا ہے،اب تو شاید انہیں خود بھی یاد نہیں کہ ان کو کتنی باربدلا گیا ہے ،سیکرٹری سروسز زید بن مقصود ہی حساب لگا سکتے ہیں ان کا ایک پوسٹ پر عرصہ تعیناتی کتنے دن یا کتنے ماہ ہے ،جہاں کوئی نہیں لگنا چاہتا وہاں انہیں لگا دیا جاتا ہے ،دیکھتے ہیں انڈسٹری کے بعد کونسی پوسٹ خالی ہوتی ہے جہاں انہیں لگایا جائے گا،حکومت کو شاید انہیں بار بار بدلنے کے علاوہ کوئی کام نہیں اور احسان بھٹہ کو کام کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔
نگرانوں کو شریف فرینڈلی اور انصاف مخالف افسروں کی کھوج ہے،اس کھوج میں بیوروکریسی آبلہ پا ہو گئی،محسوس ہوتا ہے نگران حکومت طویل ایجنڈے کے تحت لمبے عرصے کیلئے حکومت میں آئی ہے،یہی وجہ ہے کہ نگرانوں کی جو واحد آئینی ذمہ داری ہے اسے چھوڑ کر ہر کام کیا جا رہا ہے اور اسی تناظر میں انتظامی ٹیم کا چناو¿ کیا جا رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ 90روز میں الیکشن کرانے کا آئینی تقاضا فراموش کر دیا گیا ہے اور الیکشن کی تاریخ نہیں دی جا رہی،وفاقی حکومت با اصرار بار بار کہہ چکی ہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے،اس حوالے سے آئینی شقوں کی ہر کوئی مرضی سے تشریح کر کے اپنے موافق معانی دے رہا ہے،اگر چہ لاہور ہائیکورٹ اس حوالے سے واضح طور پر90روز میں الیکشن کرانے کیلئے تاریخ دینے کا حکم صادر کر چکی ہے، گورنر کا موقف ہے انہوں نے اسمبلی کی تحلیل کے نوٹیفیکیشن پر دستخط نہیں کئے اس لئے وہ تاریخ نہیں دے سکتے،مگر کے پی کے میں صورتحال اس کے برعکس ہے اور گورنر کے پی اسمبلی تحلیل کے نوٹیفیکیشن پر دستخط کر چکے ہیں،مگر وہ بھی کہتے ہیں حالات ابھی الیکشن کیلئے موافق نہیں،یہ دہرا معیار زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ وفاق اور نگران حکومت کا فوری پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کرانے کا کوئی موڈ نہیں اس حوالے سے انہیں کسی آئین کی پروا ہے نہ عدالتی حکم کی،الیکشن کمیشن کا موقف ہے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کی تاریخ ہم دیں گے،نگران جو اس مقصد کیلئے آئے ان کی طرف سے پر اسرار خاموشی ہے،واضح رہے کہ پنجاب کی نگران حکومت کے آئی جی نے الیکشن سکیو رٹی کیلئے فورس دینے،وزارت خزانہ نے فنڈز دینے اور وزارت قانون نے آر اوز اور انتخابی عملہ دینے سے بھی انکار کر رکھا ہے،اونٹ جب کسی کروٹ نہ بیٹھا تو صدر عارف علوی نے الیکشن کی تاریخ دینے کیلئے ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا اس سے قبل صدر دو خطوط الیکشن کمیشن کو ارسال کر کے الیکشن کی تاریخ دینے کا کہ چکے تھے،گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن نے صدر علوی کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت سے واشگاف انکار کر دیا،جس کے بعد مجبوراً صدر مملکت نے 9اپریل کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جسے الیکشن کرانے والے آئینی حکم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں،جو دال میں کچھ کالے کا ثبوت نہیں بلکہ ساری دال کالی ہے کا مظہر ہے۔
کہا جا رہا ہے صدر صرف عام الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں جب ملک بھر میں چناو¿ہو،آئینی ماہرین کی رائے ہے جب دو صوبوں میں ساری اسمبلی کا الیکشن ہو رہا ہے تو یہ ضمنی یا عبوری الیکشن نہیں بلکہ عام انتخابات ہی کی طرح تصور ہوں گے،سوال سیدھا ہے جب گورنراور الیکشن کمیشن،نگران سیٹ اپ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہ ہو تو بطور سربراہ ریاست صدر کو اقدام اٹھانا پڑتا ہے،قصہ کوتاہ جس قدر بھی آئینی موشگافیاں کی جائیں 90روز کے اندر الیکشن آئین کا تقاضا اور عدالتی حکم ہے،دکھائی دے رہا ہے کہ اب تک تمام سیاسی اور پارلیمانی فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں ہی طے پائے تو الیکشن کی تاریخ کا تنازع بھی عدالت میں ہی حل ہو گا،عام تاثر یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور نگرانوں کی خواہش ہے الیکشن سے قبل عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے یا نا اہل قرار دیکر انتخابی مہم سے الگ تھلگ کر کے الیکشن کا ڈول ڈالا جائے،در پردہ کوئی بھی سوچ کافرما ہو مگر اس کے نتیجے میں آئین پامال ہو رہا ہے،چیرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفیٰ بھی اس کی تائید کرتا ہے،آفتاب سلطان نے نیب افسروں سے الوداعی ملاقات میں استعفیٰ کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ اسی طرف اشارہ ہے کہ عمران خان کو راستے سے ہٹایا جائے،آفتاب سلطان کہتے ہیں کوئی ایک پلاٹ کا مالک ہو تو کہتے اسے پکڑو اور جن کے دس دس ارب ہیں وہ باہر ہیں،کوئی کہتا مجھے فلاں اراضی دلا دو کوئی کہتا فلاں کے بھائی کو چھوڑ دو،عمران خان کیخلاف بھی کارروائی کیلئے دباو¿ تھا،جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جس روز آفتاب سلطان نے استعفیٰ دیا اسی روز اسلام آباد احتساب عدالت نے عمران خان،اہلیہ بشریٰ بی بی،شاہ محمود اور فواد چودھری کو9مارچ کو توشہ خانہ سے تحائف لینے اور اختیارات سے تجاوز کے الزام میں طلب کر لیا،ڈی جی نیب لاہور کی خدمات واپس وفاق کے سپرد کر دی گئی ہیں ، پنجاب میں چیئرمین پی اینڈ ڈی کا عہدہ ان کے انتظار میں خالی رکھا گیا ہے ،سچ یہ کہ نیب سربراہ نے استعفیٰ دے کر دوسروں کیلئے راہنمائی کی روشنی فراہم کی اور اس میدان کے سلطان کہلائے،دوسری طرف ایک اور سلطان ہے جو اس بدیہی حقیقت سے بھی سبق لینے کو تیار نہیں ”سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے“۔