ملک کو تماشا نہ بنائیں

ملک کو تماشا نہ بنائیں

تمام پاکستانیوں کو مبارک ہو کہ کئی دن کی سر توڑ کوششوںکے بعد بالآخر تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ریاست کی ریڈ لائن عمران خان پیر کی شام چند سو کارکنوںکے ساتھ عدالت عالیہ کے روبرو پیش ہو گئے ۔چند سو ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ جس وقت خان صاحب ہائیکورٹ میں داخل ہو چکے تھے یا داخل ہونے والے تھے تو ہم دفتر سے گھر جاتے ہوئے مال روڈ پر جی پی او چوک سے گذر رہے تھے اور ٹریفک کی روانی شام کے اوقات میں جس طرح ہوتی ہے اسی طرح تھی ۔کئی دن پر محیط اس زبردست ڈرامہ میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان تاریخ پر تاریخ دیتے رہے لیکن خان اعظم زمان پارک سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے لیکن پھر جج صاحبان کے زبردست اصرار پر آخر کار انھوں نے عدالت عالیہ کو اپنی آمد کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا ۔ عین ممکن تھا کہ خان اعظم اپنی گاڑی سے ہی اترنے سے انکار کر دیتے لیکن پھر انھیں پتا نہیں کیا خیال آیا کہ انھوں نے دونوں عدالتوں میں قدم رنجہ فرمانے کا فیصلہ کیا اور کئی دنوں سے جو تماشا لگا ہوا تھا اور دنیا میں ہماری جو جگ ہنسائی ہو رہی تھی اس کا خاتمہ ہوا ۔ دنیا بھر میںمہذب معاشروں کا یہی چلن رہا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ معاملات میں بہتری آتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب یورپ اور پورے مغرب میں بھی ملوکیت کا راج تھا لیکن جب انھوں نے جمہوریت کے لئے کمر کس لی تو پھر پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا اور آج وہاں جمہوری اقدار اس قدر مضبوط ہیں کہ برطانیہ کا بادشاہ اختیار ہونے کے باوجود بھی ہاﺅس آف کامن کو تحلیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن افسوس صد افسوس وطن عزیز میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ یہاں تو وہی صورت حال ہے کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ بھی نہیںہے کہ جمہوریت کے لئے قربانیاں نہیں دی گئیں ایوب دور میں احتجاج بھی ہوا اور قربانیاں بھی دی گئی اور اس کے بعد جنرل ضیا کے گیارہ سالہ طویل دور آمریت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے جو تاریخ ساز قربانیاں دیں اس کی مثال دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد مشرف دور میں بھی نواز لیگ نے قربانیاں دیں لیکن پھر ایسا بھی ہوا کہ غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر
2008کے بعد کہ جب جمہوریت بحال ہوئی تو جمہوری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے جمہوریت کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا مذاق اڑانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور حقائق کے بجائے افسانوں پر ڈھول بجانے کی ترغیب دی جانے لگی جب ایسا ہو گا تو پھر وہی ہو گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے۔
وطن عزیز میں دنیا کے بر عکس وقت گذرنے کے ساتھ معاملات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے چلے گئے ۔ آج جس طرح کھلم کھلا لاڈلوں کی حمایت کی جاتی ہے اس کی مثال ماضی میںبھی نہیں ملتی ۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ ملزم کے بجائے عدالتیں انتظار کریں۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے خلاف مقدمات میں ایک ہی دن کراچی ، لاہور اور راولپنڈی کی عدالتیں تاریخ رکھ دیتی تھی اور سب کچھ جاننے کے باوجود ہر عدالت کی آنکھیں لال ہو جاتی تھیں کہ بی بی شہید ان کی عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئی ۔ تین مرتبہ کے وزیر اعظم سو سے زائد پیشیوں میں عدالتوں میں حاضر ہوئے اور یہی لاہور ہائیکورٹ تھی اور کٹہرے میں ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے جن کے کارناموں میں آئین اور نیوکلیئر پاور سمیت بیشمار کام ہیں اسی بھٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے پولیس افسر کو کہا کہ اسے عدالت سے باہر لے جا کر اس کی اوقات بتاﺅ۔ آج عمران خان سے عدالتوں کے فدویانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ لاڈلوں کا جہاں اور ہے اور حب الوطنوں کا اور ہے ۔بات اگر ملکی حدودتک محدود ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن عرصہ ہوا کہ یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہر بات سیکنڈز کے اندر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور پھر کسے معلوم نہیں کہ عدل و انصاف کی دنیا میں ہمارا کیا مقام ہے لیکن ہمیں خبط عظمت میں اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا اور جب یہ صورت حال ہو تو معاملات بہتر نہیں ہوتے بلکہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں کے لئے وقت کا جبر انھیں خود سبق سکھا دیتا ہے ۔
ایک جانب یہ معاملات ہے اور دوسری جانب چیئر مین نیب آفتاب سلطان نے استعفیٰ دے دیا ہے اور یہ کہہ کر استعفیٰ دیا ہے کہ مجھے کچھ چیزوں کے بارے میں کہا گیا جو مجھے قبول نہیں تھیں۔ اسے کہتے ہیں کہ
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
جنرل فیض اور جنرل باجوہ اور اب بقول مریم نواز ان کی باقیات موجودہ حکومت کو جو تگنی کا ناچ نچوا رہی ہیں وہ اپنی جگہ پر چیئر مین نیب ایسی انتہائی اہم اور کلیدی پوسٹ پر اگر اس حکومت کو تعیناتی کا موقع مل ہی گیا تھا تو کم از کم ایسا بندہ لگاتے جو غلط کام بیشک نہ کرتا لیکن جگ ہنسائی کا باعث بھی نہ بنتا ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چیئر مین نیب کے استعفیٰ سے موجودہ حکومت کی ساکھ پر اثر نہیں پڑے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے چیئرمین نیب چھٹی لے کر بھی جا سکتے تھے یا اگر مستعفی ہی ہونا تھا تو عام طور پر نجی مصروفیات کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے چلیں یہ تماشا بھی چھوڑیں صدر مملکت نے جان نہ پہچان میں تیرا مہمان کے مصداق پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے ۔ ملک کو اگر اظہار کا موقع دیا جاتا تو اس نے یہی کہنا تھا کہ
چین آئے میرے دل کو دعا کیجیے
ایسی قوم ملی ہے وطن کو کہ 75برس سے ایک پل کے لئے چین نصیب نہیں ہوا اور یہ کسی دشمن کا کام نہیں بلکہ سب کچھ ہمارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتا رہا ہے ۔ کالم بھیجنے کا وقت گذر جائے گا ورنہ ایک اور تماشے کا بھی آنکھوں دیکھا حال ضرور بیان کرتے ۔ جی ہاں جیل بھرو تحریک بھی تو آج سے شروع ہو رہی ہے اور لاہور مال روڈ سے شروع ہو رہی ہے۔ اس تماشا کے بعد خان صاحب کی زنبیل میں ابھی اس ملک کو انتشار کی نذر کرنے کے لئے مزید کتنے تماشے ہیں۔ اس کا تو پتا نہیں لیکن ان تماشوں کے ساتھ ساتھ ہوشربا مہنگائی اور بستر مرگ پر پڑی معیشت کو اگر ٹھیک نہ کیا گیا تو پھر باقی سب تماشے تو ایک طرف رہ جائیں گے اور ملک و قوم خود تماشا بن جائیں گے لیکن کیا فرق پڑتا ہے اصل ٹاسک تو لاڈلے کا تحفظ اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی عزت و ناموس پر حرف نہ آنے دینا ہے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ کام اب تک بڑے ہی احسن طریقہ سے سر انجام پا رہا ہے اور سال پہلے جو لاڈلے کی عزت تھی اس میں بلا شک و شبہ چار چاند لگ چکے ہیں اور اب بھی ہر لمحہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے بس گذارش یہ کرنا تھی کہ لاڈلے کے تحفظ کے چکر میں اسے اتنے چاند نہ لگا دیں کہ ملک و قوم کے لئے روشنی کی کوئی کرن باقی ہی نہ بچے اور ملک و قوم مکمل اندھیرے میں ڈوب جائیں ۔