ہماری نئی نسل کوشایدہی اس واقعہ کاعلم ہو ،یہ آج سے ٹھیک 32سال پہلے 23فروری 1991کادردناک سانحہ ہے ،کنن پوش پورہ واقعہ میں ایک تلخ یاد ہے جو کشمیر کی تاریخ میں کبھی مسخ نہیں ہو سکتی ہے کنن پوش پورہ کشمیر میں دو جڑواں گاﺅں کے نام ہیں۔ یہ دونوں گاﺅں کشمیر کی راجدھانی سری نگر کے شمال میں تقریباً 90 کلو میٹر کی دوری پرضلع کپواڑہ میں آباد ہیں۔
اس رات جب کشمیر میں پانیوں کو منجمد اور برف میں تبدیل کرنے والی سردی پڑھ رہی تھی، تریہگام آرمی کیمپ سے 4 راج پوتانہ رائفلزاور 68 مونٹائن بریگیڈ کی ایک کمپنی کنن پوش پورہ کو اپنے حصار میں لینے کے لیے نکلتی ہے ۔ پہلے وہ ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر آف پولیس محمد سلطان کو انفارم کرتے ہیں جس پر وہ دو پولیس کانسٹیبل عبدالغنی اور بشیر احمد کو ان کے ہمراہ گاﺅں بھیجتا ہے۔ فوج رات 11 بجے کنن پوش پورہ پہنچ کر دونوں گاﺅں کو حصار میں لیتی ہے اور مساجد سے اعلان کراتی ہے کہ سارے مرد گھروں سے باہر آ جائیں ۔ عورتیں گھروں میں تن تنہا رہ جاتی ہیں۔ مردوں پر فرداً فرداً جسمانی تشدد کر کے نڈھال کر دیا جاتا ہے اور جن میں کچھ کسک باقی ہوتی ہے انہیں درختوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے ۔ پھرشراب کے نشے میں دھت بھارتی درندے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور8 برس کی بچیوں سے لے کر 80سال کی عمر تک 100 سے زائدخواتین کو اجتماعی آبروریزی کانشانہ بناتے ہیں ۔یہ خوفناک سانحہ ہوجاتاہے مگرکسی کوکانوں کان خبر نہیں ہوتی ظاہرہے کہ آج سے بتیس سال پہلے ذرائع ابلاغ کے یہ وسائل میسرنہیں تھے ،زیادتی کا شکارخواتین اپنی فریادکس کے پاس لے کرجائیں کوئی امیدکی کرن نہ تھی مقامی پولیس تعاون کرنے کو تیار نہیں تھی، دنیاتک آواز پہنچانا بظاہر مشکل تھاعدالتیں اورتحقیقاتی ادارے آزادنہ تھے ۔،بالآخر کشمیر کی پانچ طالبات ایثار بتول، افرابٹ، سمرینا مشتاق، منزہ رشید، اور نتاشا راتھر نے۔ ”کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے“ کے نام سے کتاب لکھ کراس ظلم وبربریت سے دنیا کو آگاہ کیا،بھارتی درندگی اوربربریت کاپردہ چاک کیا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو متوجہ کیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے ۔
یہ کتاب2016 میں منظر عام پر آتی ہے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ریسرچ سنٹر کینیڈا کی جانب سے شائع ہونے والی اس کتاب نے دنیا بھر میں شہرت اور بھارتی فوج کے مکروہ چہرے کو عیاں کیا۔ یہ کتاب دراصل 25 سال بعد بھی انصاف کی بات کرتی ہے جو ان عورتوں کو نہیں ملا۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ وردی میں ملبوس یہ فوجی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دوسرے جگہوں پر عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کس طرح کرتے ہیں۔اور پھر سزا سے کس طرح بچ جاتے ہیں۔228 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ظلم و جبر کی وہ کہانی بیان کرتی ہے
جو ان پانچ لڑکیوں نے چھوٹے سے لے کر بڑے واقعات کو تحقیق کر کے قلم بند کی ہے۔ یہ کتاب اس بھیانک رات کی وہ داستان غم ہے جوآج بھی ہمیں جھنجوڑرہی ہے ۔ یہ کتاب دراصل ان مظلوم عورتوں کی داستان ہے ۔جو تقریبا پچیس سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کی منتظر ہیں۔
یہ کتاب دراصل ظلم کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جس کوپردے میں رکھا گیا ہے ۔کنن پوش پورہ کتاب فوج کی وہ بربریت پیش کرتی ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ فوج کا وہ بدنماچہرہ پیش کرتی ہے جسے دیکھ کرہرایک کوگھن آتی ہے ،یہ کتاب حقیقت میں انصاف کی بات کرتی ہے جو جمہوریت کا ایک ستون ہے،یہ کتا ب دراصل ایک یاد ہے جو کشمیری قوم کبھی بھی بھول نہیں سکتی،،یہ کتاب بھارتی قبضے کے خلاف وہ ایف آئی آرہے کہ جس کوکسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا۔
کتاب میں بتایاگیاہے کہ عبدالغنی کانسٹیبل جو اس سارے واقعہ کا چشم دید گواہ اور اس گاﺅں کا رہائشی بھی تھا، کو بھارتی فوج نے 1993میں بربریت سے مار ڈالا۔اس کاجرم یہ تھا کہ اس نے ایک بچے کو برف سے اٹھایا تھا، جس کو فوجیوں نے ہوس کی آگ بجھانے کے لیے ماں کی گود سے چھین کر گھر سے باہر برف میں پھینک دیاتھا۔ کشمیرکی ان بہادرخواتین نے صرف کتاب ہی نہیں لکھی بلکہ مجرموں کوکیفرکردارتک پہنچانے کے لیے ہردروازے پردستک دی ہے ، القمرآن لائن کے مطابق 2013میں مشہور وکیل اور ہیومین رائٹس اکٹوسٹ پرویز امروز کی نگرانی میں ان خواتین نے جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل رٹ دائر کی ۔ اس کے بعد فوج نے بڑے ہتھکنڈے استعمال کیے ،کنن اور پوش پورہ میں دھماکہ بھی کرایا تاکہ یہ لوگ ڈر کے مارے اس کیس کو واپس لے لیں مگر ایسا نہیں ہوا ۔ایک طویل اور مشکل عمل کے بعد 2014 میںکشمیر کی ہائی کورٹ نے متاثرین کو زرِ تلافی دینے کے احکامات جاری کیے۔ مگرعمل نہیں ہوا بعدازاں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جہاں یہ کیس اب بھی زیرالتوا ہے۔
کنن، پوش پورہ کی سماجی زندگی آج بھی متاثر اور شرمندہ ہے۔ وہاں کے لوگ اس دن سے آج تک اس رات کے کرب سے باہر نہیں نکلے۔ اس واقعہ کو ماس ریپ (mass rape) کا نام دیا گیا ہے ۔ کشمیری اس واقعہ کے خلاف 23 فروری 2013 سے یوم مزاحمت نسواں کشمیرکے طورپرمناتے ہیں ۔کشمیر ی خواتین قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاس کیے گئے خواتین کے حقوق کے عالمی بل (CEDAW) کے تحت عورتوں کو معاشرتی، سیاسی و زندگی کے ہر شعبہ میں بنیادی حقوق اورآزادی حاصل ہے جبکہ کشمیر کی صورتحال بالکل برعکس ہے جہاں بھارتی فوجی تسلط اور ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
کشمیر کے تنازعے نے اگر ہزاروں کشمیریوں کی جانیں لی ہیں تو ان گنت خواتین نے بھی اپنی عزتیں کھوئی ہیں۔ 1980 کے اواخر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ایک نیاسیاہ باب شروع ہوا جو اب تک جاری ہے اور اس دوران ایک ہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ 1989 سے لے کر 2022 تک 12 ہزار 121کشمیری خواتین بھارتی افواج کے ہاتھوں درندگی اور عصمت دری کا شکار ہو چکی ہیں، 23ہزار 234 بیوہ ہو چکی ہیں اور ہزاروں خواتین نیم بیوہ کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہیں جن کے شوہر لاپتہ ہو چکے ہیں اور ابھی تک ان کے متعلق کوئی معلومات نہیں مل سکی ہیں۔
قابض بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے ۔ مقبوضہ وادی میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کارروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کشمیری خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ صرف کسی ہوس کے مارے بھارتی فوجی اہلکار کا انفرادی جرم نہیں بلکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کچلنے کیلئے ریاستی دہشتگردی کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ان کے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مردوں کے سامنے ان کی عورتوں کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی گھاﺅ ہے جس کے ذریعے کشمیری مرد و خواتین کوشدید اذیت پہنچائی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ قابض سکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی خواتین میں 1990 میں ذہنی تناوسے متعلقہ مریضوں کی تعداد 10 فیصد تھی جو کہ اب 60سے70 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں ہر 100 میں سے 70عورتیں نفسیاتی مریضہ بن چکی ہیں۔
بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں، آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں۔ ظلم و ستم، کریک ڈاﺅن، جعلی مقابلوں، گمشدگیوں، بہیما نہ تشدد اورقتل و غارت کے باوجود کشمیری خواتین پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں ۔