پاکستان جن معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کو جس طرح جنگی بنیادوں پر معاشی صورتحال سے نمٹنا چاہئے وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔ بادی النظر میں صرف یہی لگ رہا کہ حکومت کی پوری توجہ صرف اور صرف قرض مانگنے پر لگی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف یا کوئی بھی دوست ملک کسی طرح سے قرض دینے پر راضی ہوجائے۔اگر یہ صورتحال رہی تو حکومت کو ہر تین مہینے بعد عالمی ساہو کار اداروں اور دوست ملکوں سے بھیک مانگنا پڑے گی۔حکومت کی حالت ساون کے اندھے جیسی ہے جسے ہر جانب ہرا دکھائی د ے رہاہے۔حکومت کو چاہئے ہنگامی بنیادوں پر معاشی اہداف کے حصول کے لئے کمیٹیا ں تشکیل دے۔ ان کمیٹیوں کو سرکاری وزراءاورسرکاری بابوؤں کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ ان میں پاکستان کے ٹاپ 100 بزنس مینوں کو شامل کیاجائے۔یہ لوگ کرپٹ مافیا کے نیچے کام نہیں کر سکتے۔ سی پیک کی فوری بحالی بے حد ضروری ہے۔ وزیر اعظم چائنہ اور لوکل انوسٹر کو اعتماد میں لے کر انھی پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں۔ یہ کمیٹی سی پیک پر فوری کام کی بحالی ، انڈسٹریل زون میں انوسٹمنٹ اور ٹریڈ روٹ کھولنے کے اقدامات کرے۔ گوادر پاکستان اور خطے کی خوشحالی کا دروازہ ہے۔ گوادر کی بندرگاہ اور انٹرنیشنل ائر پورٹ کو جلد ازجلد مکمل آپریشنل کرنے کا حکم جاری کریں۔ یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہماری تقدیر بدلنے کے لئے کافی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اربوں ڈالر صرف راہداری کے ٹیکسز سے حاصل کیا جاسکتے ہیں۔ سی پیک پر تجارت کے ساتھ پاکستان میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ سی پیک ، ٹوراز م اور نج کاری کی نئی وزارتیں بنائیں۔ پاکستان خوبصورت ساحلوں ، بے مثال کلچرل اور تاریخی مقامات ، حسین پہاڑوں اور وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ پاکستان کا ناردرن ایریا سوئٹزر لینڈ سے بھی بڑا ہے۔ اگر سوئٹزر لینڈ صرف سیاحت سے 70 ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے تو پاکستان کو کیا مسئلہ ہے؟ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ گوادر کی حسین نیلگوں پانیوں والی653 کلومیٹر طویل پٹی لاکھوں کروڑوں سیاحوں کے لئے بے حد پر کشش تفریحی مقام بن سکتا ہے۔ حکومت کا اس پر ایک آنہ بھی خرچ نہیں ہونا۔ آپ نے صرف کرنا یہ ہے کہ پاکستان میں ملک ریاض جیسے بڑے ڈویلپرز کو بلائیں ۔ آسان ترین شرائط پر دس دس کلومیٹر کا علاقہ ایک ڈویلپر کو کم از کم 30 سال کی لیز پر دیں۔صرف 65 بندے پورے گوادر کے ساحلی علاقے کو ڈویلپ کر دیں گے۔ کامیاب کاروباری لوگ جانتے ہیں کہ سرمائے کا ریٹرن کیسے لانا ہے۔ لوگ دوبئی بھول جائیں گے۔ حکومت نے صرف اس پورے ایریا کو سی پیک سے منسلک کرنا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو یہ کام بھی یہ لوگ خود ہی کر لیں گے۔ موجودہ حکومت میں وزیروں اور مشیروں کی بھرمار ہے اور کام ٹکے کا نہیں ہو رہا۔ سیاسی جماعتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے عوام کو راضی کریں۔ کل کو انھی سے ووٹ لینے کے لئے جانا ہوگا۔ جو لوگ اصل میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو عزت دیں۔ پاکستان میں پو ٹینشل بہت ہے۔ ہمیں بس ایک مضبوط ارادے والی حکومت چاہئے۔ ایسے ہی حکومت ناردرن ایریا ز کو بھی بڑے بزنس مینوں یا کاروباری گروپوں کو لیز پر دے۔ ایک اصول بنا دیا جائے کہ جو بھی حکومت آجا ئے یہ لیز کینسل نہیں ہوگی۔ جس طرح ہم فارن انوسٹر کو گارنٹی دیتے ہیں۔ آپ کو باہر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ پاکستان ایشیا میں نمبر ون ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بن سکتا ہے۔ یہ منصوبے تھوڑے وقت طلب ہیں۔ فی الحال حکومت کو ایک ایسے راستے کی ضرورت ہے جس سے وہ فوری طور پر اس معاشی بحران سے نمٹ سکے۔ حکومت کے پاس ملک اندر بے شمار کمرشل زمین بے مصرف پڑی ہے۔ حکومت فوری طور پر اوپن نیلامی کے ذریعے یہ زمینیں بیچ دے۔ اس کے ساتھ پی آئی اے ، ریلوے اور سٹیل مل جیسے ادارے جو ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ ان کی فوری طور پر نجکاری کر دی جائے۔ صرف یہ دو قدامات کر لیں تو فوری طور پر پچیس تیس ارب ڈالر حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اور ہم صرف ایک ارب ڈالر کے لئے قومی وقار داؤ پر لگا کر بیٹھے ہیں۔ آج کل حکومت بجلی بچانے کے نام پر کاروبار بند کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مجھے چند دن قبل پاکستان کے چند بڑے کاروباری حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ سب پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر متفکر تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے بجلی کی بچت اور کاروبا ر چلتے رہنے کے لئے بڑی زبردست تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت گرمیوں میں دفتری اوقا ت صبح آٹھ سے2 بجے کے بعد تمام ائر کنڈیشند اور گاڑیاں بند کر دی جائیں۔ جبکہ کاروبار ی اوقات صبح 10سے رات 8 بجے کر دیں۔ ہمیں بجلی کی بچت ہو گی اور کاروبار بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ حکومت کو سب سے پہلے نااہل اور نالائق کابینہ کو فارغ کرنا ہو گا۔ جو ان حالات میں بھی مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس وقت 60 بلٹ پروف گاڑیاں کابینہ کے استعمال میں ہیں۔ ججز ، جرنیل اور بیورو کریٹ کے زیر استعمال اس کے علاوہ ہیں۔ برطانیہ جیسے ملک میں صرف 45 سرکاری گاڑیاں ہے۔ یہاں ستم ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد گاڑیوں کا پٹرول مرمت سرکار کے ذمہ ہے۔ یہ پیسہ عوام کا خون نچوڑ کردیا جاتا ہے۔ یہ عیاشیاں فوری طور پر بند کریں۔ سارے پروٹول سکواڈیک قلم جنبش بند کردیں۔ جب یہ وزیر اپوزیشن میں ہوتے ہیں ، جب یہ بیورو کریٹ اور جرنیل ریٹائر ہوتے ہیں تو سڑکوں پر اکیلے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ صرف سرکار کے پیسے پر پروٹوکول کا نشہ پورا کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں بھی حکومت ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے دے رہی ہے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ رقم ٹھیکیداروں، بابوؤں اور ان ایم این ایز کی ذاتی جیب میں چلی جائے گی۔ خدارا اس قوم پر رحم کریں۔ وزیر اعظم شہباز شریف بار بار میثاق معیشت کی بات کرتے ہیں۔ فوری طور پر ایک ملک گیر کانفرنس بلائیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت نہیں آتی تو نہ آئے۔ آپ منشا، سوچان ، داؤد، بحریہ، حبیب، ہاشو ،پیکجز ، سفائر جیسے ٹاپ 100 ٹیکس پیئر بڑے گروپس کو بلائیں۔ دنیا بھر میں پھیلے اوورسیز پاکستانیوں میں سے ہر ملک سے ٹاپ 5 بزنس مینوں کو دعوت دیں ۔ انھیں ائر پورٹ پر پروٹوکول دیں۔ اگر ہم چند ٹکوں کی خاطر آئی ایم ایف کے ترلے کر سکتے ہیں تو اپنوں کو عزت کیوں نہ دیں۔ ان سب کو بٹھا کر سرمایہ کاری کے منصوبے لیں۔ انھیں عزت اور اعتماد دیں۔ کام کرنے کی پاور دیں۔ ان کا کوئی کام نہ رکے۔ آپ صرف رزلٹ پر نظر رکھیں۔ یہ ملک ایک سال میں بدل جائے گا۔بس آپ ملک کے حقیقی طبقے سے میثاق معیشت کرلیں۔