اسلام آباد: تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے جو بینچ بنایا گیا ہے اس پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ۔ 9 رکنی بینچ جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس طارق کے نہ ہونے سے بہت سیاسی اور یکطرفہ ہوگیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ یہ جو 9رکنی لارجر بینچ تشکیل ہوا ہے اسکو آپ بریکنگ نیوز کہہ رہے ہیں لیکن اس بریکنگ نیوز کے اندر بھی ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز چھپی ہوئی ہے اور وہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اتنا بڑا بنچ ہے اور اتنا اہم معاملہ ہے لیکن اس میں نہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ ہی جسٹس سردارطارق کو شامل کیا گیا ہے تو ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے اور یہ سوال نہیں ہے بلکہ بریکنگ نیوز ہے کہ اتنے اہم معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردار طارق کو بینچ میں کیوں نہیں شامل کیا گیا تو اب یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو کہ ہم نظر انداز نہیں کرسکتے
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں معزز جج صاحبان کے اس بنچ میں شامل نہ ہونے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی Politicized (سیاسی )بہت ہی Polarized (یکطرفہ) قسم کا بینچ ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل جب کچھ ججز کو لانا تھا ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ اورجوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس کے جو اندرونی معاملات تھے ان میں ججز کی گروپنگ سامنے آئی تھی تو چیف جسٹس صاحب کو یہ چاہئے تھا کہ وہ بینچ ایسا بناتے جس سے یہ تاثر دور ہو کہ سپریم کورٹ میں گروپنگ نہیں ہے لیکن انہوں نے جو بنچ بنایا ہے اس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ گروپنگ ہے۔
تجزیہ کار اور قانون دان منیب فاروق نے کہا کہ جوقابل عزت چیف جسٹس نے سوموٹو لیا سب سے پہلے تو بنیادی بات یہ ہے کہ اس بنچ کی تشکیل اگر آپ دیکھیے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہتر ہوتا شاید کہ جن معزز ججز صاحبان کے بارے میں اتنی چہ میگوئیاں اور متعدد بار ریفرنس بھیجنے کی تیاری کررہی ہیں ان کو خود ہی معذرت کرلینا چاہیے تھی کہ وہ کسی بینچ کا حصہ نہ بنیں جب تک یہ معاملات سلجھ نہیں جاتے ۔
بہرحال یہ استحقاق ہے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہ وہ کسی بھی جج کو جس کو بھی وہ چاہیں بنچ کا حصہ بنائیں اب یہ 9رکنی بینچ ہے اس میں دو تین باتوں کا اندزاہ لگانا ہے سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے گا ایک بات فیکٹ ہے کہ صدر مملکت کا جو خط تھا الیکشن کمیشن کو جو صدر مملکت کا اعلان تھا الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اس کی جو آئینی اور قانونی حیثیت ہے اس کو بھی پرکھا جائے گا یہ چند ایسے سوالات ہیں جو عدالت کے سامنے بھی آئیں گے۔