اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں اپنے احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس میں عمران خان کی رہائی اور 26 ویں ترمیم کے خاتمے سمیت دیگر اہم سیاسی امور پر آواز بلند کی گئی تھی۔ احتجاج کی حکمت عملی کے مطابق پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے چاروں اطراف سے دھاوا بولنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
مقامی انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، یہ احتجاج پاکستان کی معیشت کے لیے ایک مہنگا اور خطرناک قدم ثابت ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 24 نومبر کو، ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کو تقریباً الٹ کر رکھ دیا گیا۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور مظاہرین کو ایک چھوٹے بچے کے کھیلنے والے میدان میں تبدیل کر دیا گیا جو عمران خان کی رہائی کے حق میں آواز اٹھا رہے تھے۔
احتجاج کی شدت اور شدت کی سیاسی چالبازیوں کا تسلسل ایک طویل عرصے سے دیکھا گیا ہے، جس کا مقصد عوامی حمایت کو حاصل کرنا تھا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے حامیوں نے سیاسی تبدیلی کی خواہش میں احتجاج کو مسلسل اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔
ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے لابیز کا بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ گہرا جال ہے، اور ان کا موقف عالمی سطح پر پھیلایا جاتا رہا ہے۔ یہ احتجاج ایک طرح سے ایک سیاسی چیلنج کے طور پر سامنے آیا، جس میں عوام کو جذباتی طور پر بے چین کیا گیا۔
ڈاکٹر الیگزینڈرا کالڈویل، جو عالمی گورننس اور سیاسی نظام کی ماہر ہیں، نے 6 جنوری کے کیپٹل ہل واقعات اور 24 نومبر کے پی ٹی آئی کے احتجاج میں مماثلتیں نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی بدامنی اقتصادی، سفارتی اور گورننس کے حوالے سے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات کی گمراہ کن مہم کے ذریعے ریاست اور حکومت کی خودمختاری کو کمزور کیا گیا۔
پاکستان کی معیشت پر اس احتجاج کے اثرات بھی نظر آئے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹس میں کہا گیا کہ سیاسی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ اقتصادی اشاریے اگرچہ کچھ بہتری کا مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم معیشت ساختی رکاوٹوں کا شکار تھی۔
اس کے علاوہ، پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین کے وفود نے پاکستان کے دوروں کو کم کر دیا، اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان کی سرمایہ کاری کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، جو ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکومت نے اپنے وسائل کا غلط استعمال کیا اور احتجاج کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی وسائل کو استعمال کیا۔ سرکاری مشینری کا استعمال، جیسے کرینیں اور فائر ٹینڈرز، نہ صرف عوامی خزانے کی بربادی تھی بلکہ یہ عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سکیورٹی اہلکاروں کی جھڑپوں کے دوران انٹرنیٹ کی معطلی اور اس کے نتیجے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) کی بدترین گراوٹ کا سامنا کیا گیا، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں میں بے چینی پھیل گئی۔ یہ منظر ملک کے سیاسی عدم استحکام کے عالمی اثرات کا غماز تھا، جو معیشت پر سنگین اثرات مرتب کر رہا تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احتجاج کے دوران ہونے والی پرتشدد جھڑپوں اور سیاسی بدامنی نے ملک کے خودمختار ڈالر کے بانڈز کی قیمتوں کو نیچے کی طرف دھکیل دیا، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ اگر سیاسی بے چینی اور احتجاج کے اس سلسلے کو فوری طور پر روکا نہ گیا، تو یہ معاشی ترقی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرسکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کے مستقبل کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ سیاسی عدم استحکام کو کم کیا جائے تاکہ ملک میں پائیدار ترقی کے لیے بہتر حالات پیدا کیے جا سکیں۔