صارفین کی فون کالز ، معلومات ریاستی اداروں سے کیسے شیئر کی جاتی ہیں؟ فون کمپنیوں سے جواب طلب

 صارفین کی فون کالز ، معلومات ریاستی اداروں سے کیسے شیئر کی جاتی ہیں؟ فون کمپنیوں سے جواب طلب

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشری بی بی کی آڈیو لیکس کیس  کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی آئی بی کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی اور سرار لطیف کھوسہ  کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئی بی اس حوالے سے تحقیات کرکے تفصیلی رپورٹ جمع کرائے کہ آڈیو ٹیپ کیسے ہوئی ؟ کس نے لیک کی ؟ اکاؤنٹ ہولڈر کون ہے ؟ْ

 جسٹس بابر ستار نے  حکم دیا کہ ڈی جی آئی بی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں ۔ڈی جی آئی بی بتائیں شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے اور کیا ریاستِ پاکستان کے پاس اس غیرقانونی سرویلنس کو روکنے کی صلاحیت ہے؟ 

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ  عدالت کو  یہ بتایا گیا آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر معلومات جاری کرنے کے سورس کے تعین کی صلاحیت موجود نہیں ، آئی بی انکوائری کر کے غیرقانونی آڈیو لیک کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور شیئر کرنے والوں کا تعین کرے  اور آئی بی تین ہفتے میں رپورٹ جمع کرائے ۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ نے موبائل سروس اور لینڈلائن فون کمپنیوں کو بھی آڈیو لیکس کیس میں فریق بنا کر نوٹسز جاری کر دیے۔ رپورٹ جمع کرائیں کہ کیا پی ٹی اے، انٹیلی جنس یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے کالز انٹرسیپٹ کرنے کیلئے رابطہ کیا؟  یہ بھی بتائیں کہ کس اتھارٹی کے تحت قانونی انٹرسیپٹ کام کرتا ہے۔  صارفین کی فون کالز یا دیگر معلومات ریاستی اداروں سے کیسے شیئر کی جاتی ہیں؟ 

واضح رہے کہ  بشری بی بی اور سرار لطیف کھوسہ کی آڈیو لیکس  کے خلاف درخواست زیر سماعت ہے۔ 

مصنف کے بارے میں