لاہور : مسلم لیگ (ن) نے استحکام پاکستان پارٹی کے اُن امیدواروں کے حق میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے دباؤ کی مخالفت کی جو 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد اس میں شامل ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیں جو 9 مئی کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔
انگریزی اخبار "ڈان" میں شائع رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان ترین کی قیادت میں آئی پی پی پنجاب میں کئی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے مدِمقابل ہے جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور آئی پی پی کے درمیان بات چیت ابھی جاری ہے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد آئی پی پی میں شامل ہونے والوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کی ہچکچاہٹ کے بارے میں سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے ابھی تک اپنے انٹرویوز مکمل نہیں کیے ہیں اور لاہور ڈویژن زیر التوا ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) نے آئی پی پی سے کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے پنجاب میں انتخابات لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کی اپنی طویل فہرست کو مختصر کریں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اُن آئی پی پی رہنماؤں کی ذمہ داری نہیں جو 9 مئی کے واقعات کے بعد آئی پی پی میں شامل ہوئے تھے، تاہم اُن لوگوں کے ناموں پر غور کیا جا سکتا ہے جن سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے لیے حمایت کے بدلے ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے آئی پی پی کو یہ بھی کہا کہ وہ جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں آئی پی پی کے 25 سابق اراکین اسمبلی کو ٹکٹ دے چکے ہیں، دوبارہ ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چیت ’طاقتور حلقوں‘ کے دباؤ پر کر رہی ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آئی پی پی کو صرف ’مٹھی بھر‘ سیٹیں دینے میں دلچسپی رکھتی ہے، تاہم وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مقامی سیاست کا رخ متعین نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو مسلم لیگ (ن) اور آئی پی پی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاہدے کے امکانات بہت کم ہیں، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) رہنما آئی پی پی جہانگیر ترین اور صدر علیم خان کے لیے لودھراں اور لاہور میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے کیونکہ وہاں مسلم لیگ (ن) کے پاس مضبوط امیدوار موجود ہیں۔