ففتھ جنریشن پالیٹیکس اور جھوٹ کی اقسام

ففتھ جنریشن پالیٹیکس اور جھوٹ کی اقسام

جس طرح جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے آپ توسیع کر کے سیاست کو بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں بھی جیت اور اقتدار کیلئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا زمانہ ہے اور جب جنگ اور سیاست کے قواعد ایک ہو جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کل ہمارے ہاں ففتھ جنریشن سیاست بھی ویسی ہی ہو رہی ہے جس میں گمراہ کن پراپیگنڈا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ 
پہلے یہ ہوتا تھا کہ حکومت کو پراپیگنڈا کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو پرفارمنس کے ذریعے ثابت کرتی تھیں اب وقت اور طرز حکمرانی بدل گئے ہیں اس کے لیے پوری ایک الگ وزارت وجود میں آچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ ، برطانیہ، روس اور چائنا جیسے ممالک میں وزیر اطلاعات نہیں ہوتے پھر بھی اطلاعات عوام تک پہنچ رہی ہوتی ہیں جبکہ جدید جمہوریتوں میں ابلاغ عامہ کی وزارت کے باوجود عوام تک وہی اطلاعات پہنچتی ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔ 
مارک ٹوائین نے کہا تھا کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک جھوٹ دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرے اعداد و شمار۔ حکومتوں کے پاس وزارت اطلاعات کی طرح اعداد و شمار کی بھرمار ہوتی ہے جس سے ایک پوری سائنس وجود میں آسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری اعداد وشمار اپنا اعتبار کھوتے جا رہے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اعداد و شمار کی تاویل و تشریح ہر فریق اپنی مرضی سے کرتا ہے جس سے سچ کی تلاش اور مشکل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے آج کل اکثر یہ سنا ہو گا کہ پاکستان کا شمار اب بھی دنیا کے سستے ممالک میں ہوتا ہے جبکہ اشیائے خورونوش پہلے سے دوگنی ہو چکی ہیں۔ 
عام طور پر جب دلیل کی طاقت کمزور ہونے لگتی ہے تو اعداد و شمار کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے یہ وہ اعداد و شمار ہوتے ہیں جو خود ہی جاری کئے گئے ہوتے ہیں پاکستان کی گزشتہ سال کی جی ڈی پی گروتھ کے پس پردہ کہانی اس وقت اخبارات کا حصہ بنی تھی کہ کسی طرح مختلف وزارتیں اور ادارے اس پر متفق نہیں تھے مگر حکومت نے تہیہ کر رکھا تھا کہ GDP میں غلو سے کام لینا ہے لہٰذا پاکستان کی GDP وہی ہے جو وزیر خزانہ نے فرما دیا۔ 
یہی حال معاشی اشاریوں کا ہے حکومت نے عوام کو مژدہ سنایا ہے کہ حالیہ سال میں موٹر سائیکل جو کہ غریب آدمی کی سواری ہے اس کی فروخت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں غریبی کم ہو رہی ہے اور خوشحالی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کو بھی امیری کے سا تھ جوڑا جا رہا ہے جس کے لیے باقاعدہ اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں۔ 
موٹر سائیکل کی فروخت کے معاملے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جاپان کے مہنگے موٹر سائیکل کی سیل گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے جبکہ چائنا کے سستے بائیک کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ جس کو حکومت یہ سمجھتی ہے کہ لوگوں کا معیار بلند ہو گیا ہے کہ وہ چائنا کے سستے موٹر سائیکل چھوڑ کر جاپان کے مہنگے موٹر سائیکل خرید رہے ہیں۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ 
اصل حقیقت یہ ہے کہ چائنا کے موٹر سائیکل کا معاشرے کا غریب طبقہ خریدار تھا مگر اب ان کے اندر اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ یہ خرید سکیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پرانے موٹر سائیکلوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اب جاپان کے موٹر سائیکل جو کہ سفید پوش مڈل کلاس طبقے کی سواری ہے ان کی فروخت میں اضافے پر غور کرتے ہیں۔ 
جاپانی موٹر سائیکل کی قیمت 2018ء میں 61ہزار روپے تھی جو اب 95 ہزار ہو چکی ہے  ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے کمپنی تواتر کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے جب یہ کالم شائع ہو تو ہو سکتا ہے۔ ہنڈا 70-CD کی قیمت 95 ہزار سے تجاوز کر کے ایک لاکھ پر چلی جائے۔ ہوا یہ ہے کہ مہنگائی کی ہوشربا لہر کے بعد اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے پے در پے اضافے کی بنا پر بہت سے خوشحال طبقے نے گاڑیاں بیچ کر موٹر سائیکل خرید لیے ہیں۔ اس لیے جاپانی موٹر سائیکل کی فروخت بڑھی ہے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے گاڑی رکھنے والے گھرانوں میں نیا ٹرینڈ یہ ہے کہ وہ موٹر سائیکل خرید رہے ہیں۔ یہ لوگ نمود و نمائش کی حد تک گاڑی استعمال کرتے ہیں مگر پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کا ریگولر استعمال کرتے ہیں جبکہ گاڑی کا استعمال انہوں نے کم کر دیا ہے۔ 
موٹر سائیکل کی فروخت میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ چنگچی رکشے کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے جو کہ غریب آدمی کی سواری ہے موٹرسائیکل کو رکشے میں Convert کرنے کی پوری ایک انڈسٹری وجود میں آچکی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے ریکارڈ میں چلنے والے موٹر سائیکل دراصل رکشے میں تبدیل ہو چکے ہیں نہ تو انہیں بطور پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کا کوئی ٹیکس ہے نہ کوئی قانون سازی ہے نہ ٹریفک پولیس کے پاس ڈیٹا ہے ہم نے لکڑی کی بنی ہوئی گدھا گاڑی کو بھی موٹر سائیکل پر چلانے کی مثالیں دیکھی ہیں یہ سارے وہ فیکٹر ہیں جو موٹر سائیکل کی فروخت میں اضافے کو خوشحالی کے بجائے غربت میں اضافے کی عکاسی کرتے ہیں۔ 
یہاں ضمنی سوال یہ ہے کہ چلیں موٹرسائیکل کی فروخت میں اضافہ خوشحالی کے بجائے غربت کی عکاسی کرتا ہے مگر موجودہ دور میں گاڑیوں کی فروخت بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے تو کیا یہ خوشحالی کی علامت ہے افسوس کہ اس کا جواب بھی منفی میں ہے۔ گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنیاں حکومتی نا اہلی کی وجہ سے گاہکوں کا استحصال کرتی ہیں پیسے لے کر 6،6 ماہ تک انتظار کرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک پر کشش Own Industry قائم ہے۔ مڈل مین گاڑی بک کرتے ہیں اور جب ڈلیور ہوتی ہے تو اس پر انہیں 3 لاکھ سے لے کر 6 لاکھ تک Own کی مد میں منافع ملتا ہے اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چونکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا کوئی اور ذریعہ باقی نہیں رہا اس لیے بہت سے لوگ اس آٹو سیکٹر کے مڈل مین بن گئے ہیں جن کی وجہ سے آٹو مارکیٹ میں مصنوعی ڈیمانڈ پیدا ہو گئی ہے جو معاشی ترقی کی قطعاً علامت نہیں۔ 
کچھ عرصہ پہلے تک حکومت کا پراپیگنڈا وزیراعظم سے لے کر نیچے تک یہ تھا کہ فیصل آباد میں صنعتی شعبے کی ایکسپورٹ کے اتنے آرڈر مل چکے ہیں کہ پورا کرنے کے لیے لیبر نہیں مل رہی ۔ یہ ایک بہت بڑا کرتب تھا حقیقت یہ تھی کہ اگر یہ سچ ہے تو آپ کا ٹریڈ بیلنس جو 4 بلین ڈالر کے خسارے میں ہے وہ بہتر کیونکہ نہیں ہو رہا ایکسپورٹ کیوں نہیں بڑھ رہی۔ اب قوم کو نیا سبق دیا جا رہا ہے کہ امپورٹ میں اضافہ بھی ترقی کی نشانی ہے بیلنس آف پے منٹ میں اگر خسارہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے یہ حکومتی مؤقف بھی وزیراعظم سے شروع کرا یا گیا ہے اور نیچے تک لایا جا رہا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر ہمیں ایک بار پھر مارک ٹوائین اور جھوٹ کی تین قسمیں شدت سے یاد آ رہی ہیں۔