کراچی: پاکستان اسٹاک ایکسچنج کے 40 فیصد اسٹریٹیجک حصص چینی کنسورشیم نے خرید لیے ہیں جس نے 32 کروڑ شیئرز کیلئے فی شیئر سب سے زیادہ 28 روپے کی بولی لگائی اور اس کا تخمینہ 85 کروڑ ڈالر یا 8 ارب 96 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچنج نے چالیس فیصد شیئرزکی فروخت کے لیے عالمی سرمایہ کاروں سے بولیاں طلب کی تھیں، چینی کنسورشیم نے 28 روپے فی شیئر کے حساب سے سب سے زیادہ بولی دی۔
چینی کنسورشیم کمپنیوں میں چائنہ مالیاتی فیوچرز ایکسچینج کمپنی لمیٹڈ (اہم بولی دہندہ)، شنگھائی اسٹاک ایکسچینج اور شینزین اسٹاک ایکسچینج شامل تھیں۔
مجموعی طور پر یہ کمپنیاں اسٹریٹیجک اسٹاک کا 30 فیصد خریدیں گی جبکہ مقامی مالیاتی ادارے پاک چین انویسمنٹ کمپنی اور حبیب بینک لمیٹڈ فی کس 5 فیصد کی خریداری کریں گے، جو قانون کے مطابق ایک ادارہ زیادہ سے زیادہ خریداری کرسکتا ہے۔
خیال رہے کہ مذکورہ معاہدے کی اہم خصوصیات میں یہ حقیقت موجود ہے کہ یہ علاقائی مارکیٹوں میں ایک بورص (bourse) کیلئے پہلی ایسی اسٹریٹجک مفاد کی فروخت ہے۔
اس معاہدے کے ذریعے چین سے تعلق رکھنے والے بورص کا ان کے ملک سے باہر یہ کسی بھی قسم کی پہلی سرگرمی ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کمیٹی کی جانب سے جمعرات کو بولی دہندہ کے نمائندوں سے بولیاں طلب کی گئی تھیں اور سب سے بڑی بولی کا مطالبہ کیا گیا تھا جو مارکیٹ ذرائع کے مطابق آڈٹ اینڈ ایڈوائزی سروسز فراہم کرنے والی ایک عالمی فرم 'کے پی ایم جی' کی جانب سے کم سے کم 26 روپے تعین کی گئی تھی۔
ابتدائی طور پر 17 پارٹیز نے بولی میں دلچسپی ظاہر کی تھی، ذرائع کے مطابق حتمی بولی میں 6 بولی دہندہ موجود تھے جبکہ اسورٹیم آف مارخور اور 'این اے ایس ڈی ای کیو' آخری لمحے میں بولی سے چلے گئے۔
کمیٹی نے دیگر بولی دہندہ کی شناخت ظاہر نہیں کی اور نہ ہی ان کی جانب سے کی جانے والی پیش کش کے بارے میں ہی بتایا گیا ہے لیکن ایک جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کامیاب بولی دہندہ کو قبولیت کے خط جاری کرے گی۔
تاہم مذکورہ خط کو جاری کرنے کی حتمی تاریخ کے بارے میں اعلان نہیں کیا گیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 27 دسمبر تک جاری کردیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ معاہدے کی حتمی منظوری سیکیورٹی اینڈ ایکسچنج کمیشن دے گا۔
یاد رہے کہ 20 فیصد شیئرز عوام کیلئے پیش کیے جائیں گے جن کا تخمینہ 4 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمائے، تجربے، تکنیکی مدد اور نئی مصنوعات لانے کی توقع کی جارہی ہے'.